مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے 300 سے زائد سماجی کارکنوں نے امریکہ کی جانب سے ممکنہ فوجی حملے کی دھمکیوں کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کسی بھی غیر ملکی جارحیت کی صورت میں ملک کے دفاع کا اعلان کیا ہے۔
یونیورسٹی کے اساتذہ، قانونی ماہرین، انسانی حقوق کے علمبردار، وکلا، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں پر مشتمل اس گروہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش کے نام ایک مشترکہ پیغام میں واضح کیا ہے کہ وہ وطن کے دفاع میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتیں گے۔
کارکنوں نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ ایران یا اس کی دفاعی صلاحیتوں پر حملہ صرف حکومت پر نہیں بلکہ پوری ایرانی قوم پر حملہ ہوگا، جس کے نتیجے میں پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔
یہ پیغام اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو بھی بھیجا گیا، جس میں اسرائیلی حکومت کے جرائم اور امریکہ کی نئی انتظامیہ کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کی بھی مذمت کی گئی۔
کارکنوں نے امریکہ، خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی مسائل کو طاقت اور جنگ کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔
کارکنوں نے ایران پر مسلط کی گئی 1980 کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس جنگ میں ایران نے ایک پراکسی جنگ کا سامنا کیا تھا جس میں سابق عراقی صدر صدام حسین کو مشرقی و مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ ہم جنگ کے تلخ تجربات سے گزرچکے ہیں اور دوبارہ کسی جنگ کے خواہاں نہیں، لیکن اگر ایران پر حملہ ہوا تو پوری طاقت سے دفاع کریں گے۔
کارکنوں نے مغربی دنیا کی دوغلی پالیسیوں پر بھی تنقید کی، جس اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کو نظرانداز کیا گیا لیکن ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو خطرے کے طور پر پیش کیا ہے، حالانکہ یہ پروگرام اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی نگرانی میں ہے۔