عمان مذاکرات، ایران کی بالا دستی، واشنگٹن کی بعض مطالبات سے عقب نشینی

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ایران اور امریکہ کے درمیان ہفتے کے روز عمان میں بالواسطہ مذاکرات ہوئے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات سے پہلے دھمکی اور لالچ پر مبنی بیانات دے کر ایران پر نفسیاتی دباؤ لگانے کی کوشش کی تھی تاہم مذاکرات کے دوران امریکہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔

عرب زبان چینل المیادین نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری بالواسطہ جوہری مذاکرات سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران اس وقت جوہری مذاکرات کے میدان میں برتری رکھتا ہے۔

المیادین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنائی گئی، جس میں اقتصادی پابندیوں اور محدود عسکری دھمکیوں کا سہارا لیا گیا۔ تاہم یہ پالیسی الجھن اور غیر یقینی کا شکار رہی۔

ایرانیوں نے مذاکرات کی میز پر آنے کی بنیادی وجوہات کے طور پر پابندیوں کا خاتمہ اور علاقائی حکمت عملی کی ازسر نو ترتیب کے لیے مہلت کا ذکر کیا ہے۔ ایران نے امریکی سیاسی دباؤ اور بلیک میلنگ کو واضح طور پر مسترد کردیا ہے۔ اگرچہ یہ مذاکرات بند دروازوں کے پیچھے ہوئے مگر اس دوران خطے میں عسکری نقل و حرکت میں شدت آ گئی، جس سے ان مذاکرات کی حساسیت اور پیچیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایران 2015 کے معاہدے کی طرح اب دوبارہ ابتداء سے مذاکرات کرنا نہیں چاہتا۔ وہ اپنے جوہری پروگرام کو معطل کرنے کے امکان کو بھی یکسر رد کرچکا ہے۔

دوسری جانب ٹرمپ کی جانب سے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے پر تو زور دیا گیا ہے لیکن خود ایران کے پرامن جوہری پروگرام کی مخالفت نہیں کی گئی۔ یہ امریکہ کی طرف سے مؤقف میں ایک واضح تبدیلی اور پسپائی تصور کی جا رہی ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ امریکہ پہلے ایران کے پورے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

المیادین کے مطابق، یہ امریکہ کی طرف سے عقب نشینی اور ان مطالبات سے پیچھے ہٹنے کی علامت ہے جو وہ ایران پر مسلط کرنا چاہتا تھا۔

المیادین نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری بالواسطہ جوہری مذاکرات سے متعلق رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ صہیونی وزیر اعظم نتن یاہو ان مذاکرات کو بغور مانیٹر کر رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ ان پر اثرانداز ہوسکیں۔ وہ ایران پر دباؤ بڑھانے کے خواہاں ہیں اور موجودہ علاقائی کشیدگی سے فائدہ اٹھاکر اپنی داخلی پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، چین بھی ان مذاکرات میں ایک سرگرم فریق ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہ دنیا بھر کے تمام کھلے محاذوں کو سمیٹ لیں تاکہ چین کے ساتھ بڑی جنگ کے لیے وقت نکالا جاسکے۔

امریکہ کی یورپ تا ایشیا تجارتی جنگ جو ٹرمپ نے شروع کی ہے، دراصل ایک وسیع اور عالمگیر مقابلے کی تیاری ہے تاکہ امریکہ دوبارہ عالمی برتری حاصل کرسکے۔ موجودہ صورتحال کا پیغام واضح یہ ہے کہ صدر ٹرمپ  فوجی طاقت کے ساتھ دنیا پر اپنی اقتصادی برتری بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ منصوبہ ناکام ہوتا ہے تو صدر ٹرمپ زیادہ سخت حربوں مثلا اقتصادی پابندیاں اور عسکری جارحیت کا سہارا لیں گے، جو کہ عالمی طاقتوں کے مفادات سے متصادم ہوگا۔ ایسے میں عالمی کشیدگی ناگزیر ہوجائے گی۔ تاہم اس عمل میں ٹرمپ کی داخلی کمزوریاں بھی عیاں ہوچکی ہیں۔ حکومت مخالف مظاہرے، سیاسی ناکامیاں، اقتصادی دباؤ اور حتی کہ ان پر قاتلانہ حملوں کے خدشات، سب اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ کو بیرونی سے زیادہ اندرونی محاذوں پر چیلنج درپیش ہے۔

رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کے اصل دشمن صرف امریکہ سے باہر نہیں، بلکہ ملک کے اندر بھی ہیں۔ امریکی مالیاتی، میڈیا اور سیاسی کارٹل ٹرمپ کو موجودہ عالمی نظام کے لیے ایک براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی انتہاپسندانہ اور جارحانہ پالیسیوں نے نہ صرف موجودہ سیاسی نظم کو درہم برہم کیا ہے بلکہ عالمی نظام کے اصولوں کو بھی محض طاقت کی بنیاد پر پرکھنے کا رجحان پیدا کیا ہے۔ ایسے میں دنیا کے کئی حلقے منتظر ہیں کہ وہ شخص جس نے عالمی سیاست کو تہ و بالا کیا، جلد منظر سے ہٹ جائے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *