Madrasas closed in Uttarakhand: نئی دہلی (منصف نیوز ڈیسک) مسلمانوں اور اس برادری کے مذہبی اداروں کو داغدار کرنے کی منظم مہم کے ایک حصہ کے طور پر چیف منسٹر پشکر سنگھ دھامی کے تحت حکومت اتراکھنڈ نے اپنی ایک حالیہ کارروائی میں مختلف اضلاع میں زائداز 170 ”غیرقانونی“ مدارس کو بند کردیا ہے۔
حکومت پر مسلمانوں کے بارے میں منفی پروپگنڈہ کرنے کا الزام ہے۔ اُس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ دینی مدارس ”غیرقانونی اور انتہاپسندانہ سرگرمیوں“ کا مرکز ہیں۔ عہدیداروں نے ریاست کے مدرسہ بورڈ یا محکمہ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے اِن مدرسوں کو نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم خاتون اور ہندو شخص پر ہجوم کا حملہ، حجاب نکال دیا گیا اور مارپیٹ کی گئی
حال ہی میں ضلع نینی تال کے مسلم اکثریتی ہلدوانی علاقہ کے بن بھول پورہ میں ضلع انتظامیہ، میونسپل کارپوریشن اور مقامی پولیس کے عہدیداروں کی ایک مشترکہ ٹیم نے ریاستی مدرسہ بورڈ یا محکمہ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے مدرسوں کو نشانہ بنایا۔
اتوار 13 /اپریل کو چلائی گئی مہم کے دوران 14 مدرسوں کو یہ الزام عائد کرتے ہوئے مہربند کردیا گیا کہ وہ مناسب رجسٹریشن کے بغیر چلائے جارہے تھے، یہاں موصولہ میڈیا کی اطلاعات میں آج یہ بات بتائی گئی۔
ہلدوانی کے بن بھول پورہ کے علاوہ ہریدوار اور دہرادون کے دیگر حساس علاقوں پر بھی یہ مہم مرکوز رہی۔ عہدیدروں نے غیرقانونی سرگرمیوں کے امکانی مراکز کے طور پر انہیں اجاگر کیا ہے۔ کئی کیسس میں عہدیداروں نے الزام لگایا کہ تعمیرات کے لئے منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی اور تعلیمی قوانین کی لازمی طور پر تعمیل نہیں کی جارہی تھی۔
چیف منسٹر کے دفتر سے جاری کردہ صحافتی بیان کے مطابق حکومت کی مقرر کردہ خصوصی ٹیموں کے ذریعہ کرائے گئے تفصیلی سروے کی بنیاد پر یہ کارروائی کی گئی۔ چیف منسٹر نے مدرسوں کو مہر بند کئے جانے کو ”ایک تاریخی اقدام“ قرار دیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ انتہاپسندی کو فروغ دینے والے اداروں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ریاستی عہدیداروں نے اشارہ دیا ہے کہ یہ محض شروعات ہوسکتی ہے اور کہا کہ فی الحال تقریبا 500مدرسوں کی جانچ پڑتال جاری ہے اور انہیں بھی بند کئے جانے کا امکان ہے۔ حالیہ عرصہ میں مہر بند کئے گئے کئی مدرسے کئی دہائیوں سے چل رہے تھے۔
مدرسوں کو مہر بند کئے جانے سے کئی طلبہ خاص طور پر معاشی طور پر کمزور طبقات تعلیم تک رسائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ صرف ضلع دہرادون میں 14 ”غیر رجسٹرڈ“ مدارس کو بند کئے جانے سے تقریبا 150 طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔ کمیونٹی قائدین نے طلبہ کی تعلیم میں اچانک خلل اور متبادل انتظامات کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کارروائی پر مسلم تنظیموں اور سیاسی قائدین نے شدید تحفظات ذہنی کا اظہار کیا ہے۔
مسلم سیوا سنگھٹن نے مدارس کو مہربند کئے جانے کی مذمت کی ہے اور اس اقدام کو غیردستوری قرار دیا ہے۔ اُس نے اس کارروائی کے سلسلہ میں مناسب طریقہ کار کے فقدان پر تشویش ظاہر کی ہے۔ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) سربراہ مایاوتی نے بھی حکومتی اقدامات پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ متعصبانہ اور غیرسیکولر اقدامات سے گریز کریں جن کی وجہ سے کسی بھی گروپ کے مذہبی جذبات مجروح ہوسکتے ہیں۔
اتراکھنڈ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے صدر مفتی شمعون قاسمی نے غیر رجسٹرڈ مدارس کو بند کرنے کے مسئلہ کو تسلیم کیا اور ان اداروں سے درخواست کی کہ وہ طلبہ کے لئے معیاری تعلیم کو یقینی بنانے رجسٹریشن کے اصولوں کی پابندی کریں۔