مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے فلسطینیوں کو غزہ سے مستقل طور پر جبری منتقل کرنے کی کوشش کا اعلان کیا تھا، لیکن اب غزہ کی پٹی پر امریکی قبضے کے حوالے سے ایک نئی تجویز دی ہے۔ اس تجویز میں فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
تاہم امریکی اراکین کانگریس نے مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ کی تجویز کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیا ہے۔
رکن کانگریس میلانیا اسٹین بیری نے کہا کہ ٹرمپ کے بیانات بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔ میں اس سے سختی سے اختلاف کرتی ہوں۔
کانگریس کی ایرانی نژاد رکن یاسمین انصاری نے بھی کہا کہ میں ان بیانات سے خوف زدہ ہوں۔ حکومت کو اس غلط فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر برنی سینڈرز نے بھی زور کہ ٹرمپ امیروں کے لیے “ریویرا” بنانے کے لیے 22 لاکھ فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کی بات کر رہے ہیں، جب کہ 45000 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور غزہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ ہم کانگریس میں غزہ کو ارب پتیوں کے لیے نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے لیے دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ریپبلکن سینیٹر بل کیسیڈی نے بھی کہا کہ غزہ کی زمین اس کے حقیقی مالکان کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ غزہ کی تعمیر نو سے متعلق لاجسٹک مسائل ہیں۔
ریپبلکن سینیٹر کیون کریمر نے بھی زور دیا: “جب تک ہمیں بلایا نہیں جاتا، تب تک ہماری غزہ میں ہماری موجودگی کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔”
25 جنوری کو ٹرمپ نے پہلی بار فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کی تجویز پیش کی اور حال ہی میں صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اسے دوبارہ دہرایا۔