تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی قیادت میں ہوئی میٹنگ کے دوران کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پی وجین، تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان وغیرہ موجود تھے۔


نئی حد بندی کے اثرات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے 5 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ و نائب وزرائے اعلیٰ، تصویر@Mrdemocratic_
کچھ ریاستوں نے نئی حد بندی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ خصوصاً جنوبی ریاستوں نے نئی حد بندی کے مضر اثرات پر اپنی فکر ظاہر کی ہے۔ چنئی میں اس تعلق سے آج (22 مارچ) ایک انتہائی اہم میٹنگ ہوئی جس میں 5 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ و نائب وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ ساتھ ہی میٹنگ میں 3 دیگر ریاستوں کے سرکردہ لیڈران بھی موجود تھے جنھوں نے حد بندی سے اپنی ریاستوں کو ہونے والے مضر اثرات کو سمانے رکھا۔
یہ میٹنگ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی قیادت میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میں کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پی وجین، تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان اور کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے خصوصی طور سے حصہ لیا۔ اڈیشہ کی اپوزیشن پارٹی بی جے ڈی اور آندھرا پردیش کی اپوزیشن پارٹی وائی ایس آر کانگریس کی طرف سے بھی نمائندوں نے حصہ لیا۔ سبھی نے اپنی اپنی دلیلوں کے ساتھ نئی حد بندی کی مخالفت کی۔ اس میٹنگ میں شامل اہم شخصیات نے میڈیا کے سامنے اپنے تاثرات بھی رکھے، جو ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
ایم کے اسٹالن (وزیر اعلیٰ، تمل ناڈو)
حد بندی ان ریاستوں کے لیے بے حد برا ثابت ہوگا، جنھوں نے آبادی کنٹرول کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کو سختی سے نافذ کیا اور کامیابی حاصل کی۔ ہم حد بندی کے خلاف نہیں ہیں، ہم غیر جانبدارانہ حد بندی کے حق میں ہیں۔ آبادی کے حساب سے حد بندی ہوگی تو ہماری نمائندگی پارلیمنٹ میں کم ہوگی۔ ایسا ہونے پر مرکزی حکومت سے فنڈ لینے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی، کسان متاثر ہوں گے، ہماری ثقافت اور ترقی کو خطرہ لاحق ہوگا، ہمارے شہری اپنے ہی ملک میں طاقت سے محروم ہو جائیں گے۔ ان کی باتیں فراموش کر دی جائیں گی۔
پی وجین (وزیر اعلیٰ، کیرالہ)
بی جے پی حکومت بغیر صلاح و مشورہ کے اس معاملے میں آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ کند ذہن سیاسی مفادات سے متاثر قدم ہے۔ اگر آبادی کے مطابق حد بندی ہوتی ہے تو شمالی ریاستوں کے لیے سیٹوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگا، جبکہ جنوبی ریاستوں کی سیٹیں پارلیمنٹ میں کم ہو جائیں گی۔ یہ بی جے پی کے لیے فائدے کا معاملہ ہوگا، کیونکہ شمالی ریاستوں میں وہ مضبوط ہیں۔
ریونت ریڈی (وزیر اعلیٰ، تلنگانہ)
آج ملک کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ بی جے پی حد بندی کے ذریعہ سے جنوبی ریاستوں پر پنالٹی لگانا چاہتی ہے۔ ہم ایک ملک ہیں۔ ہم اس کا احترام کرتے ہیں، لیکن جنوبی ریاستیں آبادی کی بنیاد پر ہونے والی اس حد بندی کو قبول نہیں کر سکتیں۔ اس سے ہمیں سیاسی طور سے محدود کر دیا جائے گا۔ یہ قدم ہمیں اچھا کام (آبادی کنٹرول اور معاشی ترقی) کرنے کی سزا دینے جیسا ہوگا۔ ہمیں بی جے پی کو نئی حد بندی نافذ کرنے سے روکنا ہوگا۔
بھگونت مان (وزیر اعلیٰ، پنجاب)
بی جے پی جہاں جہاں جیتتی رہی ہے، وہاں سیٹیں بڑھانا چاہتی ہے، اور جہاں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہاں سیٹیں کم کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح کی حد بندی کی ہم مخالفت کریں گے۔
ڈی کے شیوکمار (نائب وزیر اعلیٰ، کرناٹک)
جنوبی ہند نے ہمیشہ سے خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسیوں کو برقرار رکھا اور آبادی کو کنٹرول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک ترقی پذیر علاقہ بنا۔ ہم نے ہمیشہ قومی مفاد میں کام کیا۔ حد بندی کے ذریعہ ہماری ریاستوں کی سیٹیں کم کر کے سزا دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
نوین پٹنایک (بی جے ڈی چیف، اڈیشہ)
آبادی کی بنیاد پر حد بندی ان جنوبی ریاستوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی جنھوں نے ملک کے مفاد میں خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعہ آبادی کو قابو میں رکھا۔ حد بندی کو آبادی کی بنیاد پر نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ میں مشورہ دوں گا کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں سبھی پارٹیوں سے تبادلہ خیال کرے، اور اس کے بعد ہی کوئی قدم بڑھائے۔