"پی کے کے" امریکہ کی پراکسی فورس/اوجلان کی پیشکش نئی تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ترک جماعت پیپلز ایکوئلٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی سے وابستہ “امرالی کمیٹی” نے 27 فروری کو تیسری بار “پی کے کے” کے رہنما عبداللہ اوجالان سے استنبول کے جنوب مغرب میں واقع جزیرہ امرالی میں ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد اوجالان نے ایک پیغام جاری کرتے ہوئے ترکی کے ساتھ چار دہائیوں سے جاری تنازعے کے خاتمے کا اعلان کیا اور “پی کے کے” کے ارکان سے ہتھیار ڈالنے اور اس گروہ کو تحلیل کرنے کی اپیل کی۔

اسی سلسلے میں مہر نیوز کے شعبہ ترکی نے معروف ترک کالم نگار مصطفی ییلماز سے گفتگو کی، جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

مہر نیوز: کئی سالوں تک “پی کے کے” اور ترک سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں، لیکن بالآخر باغچلی حکومت اور کچھ مذاکرات کے بعد، عبداللہ اوجالان نے پی کے کے کو تحلیل کرنے کی پیشکش کردی ہے۔ کچھ سال پہلے ترکی کے سینئر صحافی مرحوم مهمت علی برانت نے اوجلان کا انٹرویو کیا تھا، جس میں اوجلان کے انداز سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ “پی کے کے” کے روایتی موقف پر سختی سے قائم ہیں۔ اب کون سے عوامل اور حالات ایسے پیدا ہوئے کہ اوجالان نے اس تنظیم کے خاتمے کی پیشکش کردی؟

مصطفی ییلماز: عبداللہ اوجلان کا ہتھیار ڈالنے کی اپیل کرنا اور “پی کے کے” کو تحلیل کرنے کی دعوت دینا، ترکی کی تاریخ میں ایک اہم اور مثبت تبدیلی ہے، کیونکہ ترکی طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ یہ واضح ہوچکا ہے کہ طاقت کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔ اس لڑائی نے ترکی اور ترک قوم کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اسی تناظر میں “پی کے کے” کے بانی اور رہنما کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش خاص اہمیت رکھتی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ “پی کے کے” کے رہنما کو اس اپیل پر مجبور کرنے والے بنیادی عوامل خطے میں بدلتے ہوئے سیاسی توازن اور حالیہ سیاسی تبدیلیاں ہیں۔

یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جب “پی کے کے” کی بات کی جاتی ہے، تو کیا اسے ایک متحدہ تنظیم قرار دیا جاسکتا ہے؟ سب سے پہلے اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے، کیونکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پی کے کے کو خطے میں طویل عرصے تک بین الاقوامی قوتوں، خاص طور پر امریکہ اور یورپی ممالک نے ایک پراکسی عنصر کے طور پر استعمال کیا ہے۔

مہر نیوز: “پی کے کے” کے ارکان نے ابھی تک اوجالان کے پیغام کو سنجیدگی سے قبول نہیں کیا، اور ان کا مطالبہ ہے کہ اوجالان بذات خود ویڈیو پیغام جاری کرے۔ آپ کی نظر میں اوجلان کی اس پیشکش کو قبول کیا جائے گا؟

مصطفی ییلماز: جب “پی کے کے” کو محض ایک عسکری تنظیم نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ یہ ایک غیر قانونی اقتصادی مافیا ہے جو یورپ، بالخصوص جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں مضبوط بنیادیں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں موجود جنگجوؤں کا ہتھیار ڈال دینا کافی نہیں ہوگا، بلکہ یہ دیکھنا ہوگا کہ یورپ میں قائم اس تنظیم کے دیگر دھڑے اس معاملے پر کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔

مہر نیوز: حالیہ تبدیلیوں مخصوصا اوجلان کی پیشکش پر  ترکی کی مختلف جماعتوں کا کیا موقف ہے؟

مصطفی ییلماز: سیاسی طور پر دیکھا جائے تو ترکی میں مختلف جماعتوں کا اس پیش رفت پر ردعمل ملا جلا ہے۔ ترک معاشرے کے ایک بڑے حصے نے “پی کے کے” کی طرف سے غیر مسلح ہونے کی پیشکش کو مثبت قدم قرار دیا ہے، اگرچہ قوم پرست حلقوں میں کچھ تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم ترک نیشنل پارٹی اور باغچلی کی جانب سے پہلے سے دیے گئے بیانات نے کسی بڑی مخالفت کو روکنے میں کردار ادا کیا ہے۔

ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ “پی کے کے” کو کردوں کا واحد نمائندہ سمجھا جائے، کیونکہ ترکی میں کردوں کی نمائندگی صرف ایک جماعت یا گروہ تک محدود نہیں ہے۔ اس لیے بہتر حل یہی ہوگا کہ اس عمل میں تمام متعلقہ فریقوں کو شامل کیا جائے اور اس پورے عمل کی نگرانی ترکی کی پارلیمنٹ کرے تاکہ ایک جامع اور دیرپا حل نکالا جاسکے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *