’پی ایم ایل اے کا یہ مطلب نہیں کے ملزم کو کسی بھی بہانے سے جیل میں رکھیں‘، سپریم کورٹ نے ای ڈی پر کیا تلخ تبصرہ

عدالت عظمیٰ نے مرکزی ایجنسی ای ڈی پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ (پی ایم ایل اے) کا غلط استعمال کسی بھی ملزم کو قصداً جیل میں قید رکھنے کے لیے نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس

user

سپریم کورٹ نے بدھ (12 اپریل) کو انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کے طریقہ کار، رویے اور نقطہ نظر پر سخت اعتراض کیا۔ عدالت عظمیٰ نے چھتیس گڑھ کے آبکاری گھوٹالہ معاملے میں ایک آئی اے ایس افسر کو ضمانت دیتے ہوئے ای ڈی کی کارروائی پر کچھ تلخ تبصرے کیے۔ عدالت عظمیٰ نے مرکزی ایجنسی سے کہا کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ (پی ایم ایل اے) کا غلط استعمال کسی بھی ملزم کو قصداً جیل میں قید رکھنے کے لیے نہیں کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجّول بھویاں کی بنچ نے ای ڈی پر مذکورہ تبصرہ چھتیس گڑھ آبکاری گھوٹالہ معاملے سے منسلک پی ایم ایل اے کیس میں ایک ملزم کی ضمانت عرضی پر سماعت کے دوران کیا۔ جسٹس اوکا نے کہا کہ ملزم کو 8 اگست 2024 کو حراست میں لیا گیا تھا اور تب سے وہ حراست میں ہے۔ حالانکہ ہائی کورٹ نے شکایت پر نوٹس لیتے ہوئے سیشن کورٹ کے حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔

آن لائن پورٹل ’لائیو لاء‘ کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ معاملے کی سماعت کے دوارن جسٹس اوکا نے مرکزی ایجنسی ای ڈی پر زبانی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’پی ایم ایل اے کی سوچ یہ یقینی بنانا نہیں ہو سکتا کہ کسی نہ کسی بہانے سے کسی شخص کو جیل میں ہی رکھیں۔ کئی معاملوں کو دیکھتے ہوئے میں آپ کو واضح طور پر بتا دوں کہ 498اے معاملے میں کیا ہوا۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’اگر ای ڈی کا یہی نقطہ نظر ہے تو یہ بہت سنگین جرم ہے، لیکن اگر ای ڈی کی یہی روش ہے کہ معاملہ رد ہونے کے بعد بھی کسی شخص کو کسی بھی طرح جیل میں ہی رکھا جائے، تو پھر کیا ہی کہا جا سکتا ہے؟‘‘

انفورسمینٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس راجو نے بنچ کو بتایا کہ نوٹس کے حکم کو اس بنیاد پر رد کیا گیا تھا کہ حکومت سے منظوری نہیں لی گئی تھی، اور ایسا نہیں کہ کوئی جرم نہیں بنتا۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کی اس بات پر جسٹس اوکا نے کہا کہ ’’ہم آپ کو کس طرح کے اشارے دے رہے ہیں؟ یہ بھی سمجھیے۔ نوٹس لینے کا حکم خواہ کسی بھی بنیاد پر رد کر دیا گیا ہے لیکن یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ کوئی شخص اگست 2024 سے حراست میں ہے۔ یہ سب کیا ہے؟‘‘ اس کے بعد بنچ نے ملزم کو ضمانت دے دی اور کہا کہ ’’نوٹس کا حکم رد ہونے کے بعد اس کی حراست جاری نہیں رکھی جا سکتی۔‘‘ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے اپنے عدالتی حکم میں یہ بھی کہا کہ ’’اگر ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو افسران کو ضمانت رد کرنے کے لیے عرضی داخل کرنے کی آزادی ہوگی۔‘‘ واضح ہو کہ عرضی گزار کی جانب سے سینئر وکیل میناکشی اروڑا پیش ہوئی تھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *