بریلی: اترپردیش کے ضلع بریلی میں باہری تحصیل کے تحت جم ساونت شمالی گاؤں میں جمعہ کے روز کشیدگی پھیل گئی جب ہندو گروپس نے ٹن شیڈ میں بنی ہوئی نو تعمیر شدہ مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر اعتراض کیا۔ یہ مسجد مبینہ طور پر ایک قطعہ اراضی پر تعمیر کی گئی ہے جس کے اطراف باؤنڈی وال ہے اور اس کے اوپر ٹن شیڈ ہے۔
ہندو گروپ کے اعتراضات پر پولیس نے تحقیقات شروع کردی ہیں اور 7 افراد بشمول گاؤں کے سربراہ کے خلاف ایک کیس درج کرلیا گیا ہے۔ ہندو جاگرن منچ یووا واہنی کے ضلع صدر ہمانشو پٹیل نے گاؤں والوں کے خلاف رسمی شکایت درج کرائی تھی، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ضلع انتظامیہ سے پیش گی اجازت لئے بغیر اس مسجد کی تعمیر کی گئی اور اسے استعمال کیا جارہا ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر نماز جمعہ کے اجتماع کا ڈرون ویڈیو بھی پیش کیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ گاؤں کے سرپنچ نے سرکاری منظوری کے بغیر نماز کی ادائیگی کی راہ ہموار کی۔ پٹیل کی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے 7 افراد بشمول گاؤں کے سربراہ قادر احمد، مزمل، عقیل احمد، چھوٹے اور شاہد کے خلاف کیس درج کرلیا۔
Four #Muslim men including Gram Panchayat head arrested and FIR registered against 20 identified and unidentified persons for offering #FridayNamaz in a temporary tin shed in a house in a village of #Baheri tehsil of #Barielly, #UttarPradesh on Saturday.
A drone footage of… pic.twitter.com/cxJrU0T5gy
— Hate Detector 🔍 (@HateDetectors) January 19, 2025
شکایت میں کہا گیا ہے کہ ایک ٹن شیڈ تعمیر کرتے ہوئے اور نماز ادا کرتے ہوئے اس مقام کو غیرقانونی طور پر مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آشوتوش سنگھ نے اس معاملہ پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے متعلقہ دفعات کے تحت ایک کیس درج کرلیا ہے اور تحقیقات کررہے ہیں کہ آیا یہ زمین غیرقانونی طور پر مسجد کے لئے مختص کی گئی یا پھر یہ کوئی ناجائز قبضہ ہے۔ ہم دونوں برادریوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ تحقیقات کے دوران امن برقرار رکھیں۔
ایڈوکیٹ ریس احمد نے اس مسئلہ پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ زمین مسجد کے لئے قانونی طور پر وقف ہے تو تعمیر شروع ہوتے ہی اس مقام پر نماز ادا کرنے کی اجازت مل جاتی ہے، علاوہ ازیں اگر کسی علاقہ کے مسلمان اجتماعی طور پر کوئی پلاٹ خریدیں اور اسے نماز کی ادائیگی کے لئے استعمال کریں تو ایسا کرنا قانونی ہوگا۔ احمد نے بتایا کہ خانگی اور قانونی طور پر حاصل کی گئی اراضی پر ٹن شیڈ کی مسجد سے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ تاہم اس معاملہ کا انحصار ملکیت کے ریکارڈس اور مقامی اجازت ناموں پر ہے۔
اس واقعہ کے بعد گاؤں میں پولیس کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ علحدہ اطلاع کے مطابق پیشگی اجازت حاصل کئے بغیر 20 تا25 افراد نماز ادا کرنے کیلئے جمع ہوگئے تھے۔ اس کیس کے کلیدی افراد میں گاؤں کے سربراہ عارف، مزمل (ولد اکبر)، کبیر احمد، محمد عارف(شوکت علی کے لڑکے)، عقیل احمد، محمد شاہد اور چھوٹے شامل ہیں۔ بہیری کے سرکل آفیسر نے بتایا کہ ایک شکایت موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ جم ساونت گاؤں کے ایک خانگی مقام پر نماز ادا کی جارہی ہے۔
تحقیقات کے بعد پتا چلا مذکورہ جائیداد قادر احمد کی ہے جنہوں نے باؤنڈری وال تعمیر کی ہے اور اس کے اوپر ایک ٹن شیڈ نصب کیا ہے۔ بعدازاں توثیق کی گئی کہ پیشگی اجازت لئے بغیر جمعہ کی نماز ادا کی گئی تھی۔