غیر افسانوی ادب پر گنٹور آندھرا پردیش میں قومی سیمینار کا انعقاد

گنٹور (راست) شعبہ اردو، آچاریہ ناگارجنا یونیورسٹی، گنٹور میں منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار بعنوان ”اکیسویں صدی کا غیر افسانوی ادب: اردو، انگریزی اور جنوبی ہند کی زبانوں میں منعقدہ دو روزہ کامیاب سیمینار اختتام پذیر ہوا۔

سیمینار کا افتتاح آچاریہ ناگارجنا یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر سمہاچلم نے کیا۔ افتتاحی اجلاس سے پروفیسر سید فضل اللہ مکرم، پروفیسر قاسم علی خان، پروفیسر رضوان الرحمان، پروفیسر سریش کمار اور پروفیسر محمد نثار احمد نے خطاب کیا۔اپنے افتتاحی خطاب میں یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر سمہاچلم نے شعبہ اردو کی ستائش کی اور کہا کہ اردو دنیا کی قدآور شخصیات کو یہاں دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ یہ سیمینار میری توقع سے زیادہ کامیاب ہو رہا ہے

۔ انہوں نے کہا کہ نوزائیدہ اردو شعبہ کے پہلے سیمینار میں کثیر تعداد میں مقالہ نگاروں کی شرکت اردو شعبہ کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ انہوں نے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر سریش کمار، ڈاکٹر شہباز، ڈاکٹر فوزیہ اور ڈاکٹر شبیر باشا کو مبارکباد دی کہ سیمینار توقع سے زیادہ کامیاب ہوا کہ اس دوروزہ قومی سیمینار میں تقریباً پچاس سے زائد مقالہ نگاوں نے شرکت کی۔

 

رجسٹرار نے افتتاحی اجلاس میں مہمانوں اور مجلس مشاورت کے ارکان کو تہنیت پیش کی۔ پروفیسر قاسم علی خان،پروفیسر سید فضل اللہ مکرم (ایچ سی یو)، پروفیسر نسیم الدین فریس، پروفیسر رضوان الرحمان (جے این یو)، پروفیسر محمد نثار احمد (ایس وی یو)، ڈاکٹر محمد محبوب(کندوکور)، پرنسپل ناگور ولی(کندوکور)،ڈاکٹر ایم بی امان اللہ(چینائی) ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری (کڈپہ) اور شریمتی نلنی کی رجسٹراراور سیمینار ڈائرکٹر نے شال پوشی کی اور یادگاری مومنٹو پیش کیا۔

 

شعبہ اردو کی رابطہ کار ڈاکٹر شیخ شہباز نے سیمینار کے اغراض و مقاصد پیش کیے۔ پروفیسر رضوان الرحمان نے غیر افسانوی ادب کی تاریخ اور عربی و اردو کے غیر افسانوی ادب کا جائزہ لیا۔ پروفیسر نسیم الدین فریس‘ سابق ڈین اور صدر شعبہ اردو‘ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کلیدی خطبہ دیا۔ جس میں انھوں نے غیر افسانوی ادب کی تمام اصناف کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ سیمینا کی پہلی نشست پروفیسر سید فضل اللہ مکرم اور پروفیسر محمد نثار احمدکی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اس میں ڈاکٹر کے پی شمس الدین ترورکاڈ کیرلا،اکٹر نشاط احمد عمری، ڈاکٹر حکیم رئیس فاطمہ، ڈاکٹر محمد فیض اللہ، ڈاکٹر فاروق باشا عمری، شیخ ناگور ولی، مستان ولی نے مقالہ پیش کیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر سی فوزیہ نے انجام دیئے۔ پروفیسر سید فضل اللہ مکرم کا صدارتی خطاب رہا۔دوسری نشست کی صدارت ڈاکٹر امان اللہ اور ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈنے کی۔ اس نشست میں شیخ نازیہ، شیخ شیما، بی بی عالیہ، عبد الرشید، عبد الرزاق نے مقالہ پیش کیا۔

 

اس نشست میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر سی فوزیہ نے انجام دیے۔ تیسری نشست کی صدارت پروفیسر محمد نسیم الدین فریس اور پروفیسر قاسم علی خان نے کی جس میں سید فاطمہ بی، ڈاکٹر ای محمد انور حسین، ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری، ڈاکٹر محمد محبوب، سراج، ڈاکٹر نور اللہ، ڈاکٹراطیع اللہ شاہد نے مقالہ پیش کیا۔ اس نشست میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر شبیر باشا نے انجام دیے۔ چوتھی نشست کی صدارت ڈاکٹر نشاط احمد عمری اور ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری نے کی۔ اس نشست کے مقالہ نگاران‘ڈاکٹر ظہیر دانش عمری، ستار فیضی کڈپوی، افروز بیگم، محمد نذیر مہک، ابوبکر صدیق قاسمی، حافظ ابوطلحہ عمریاور شیخ خالد سعید عمری مدنی نے مقالہ پیش کیا۔ اس نشست میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر شبیر باشا نے انجام دیے۔ دوسرے دن 28فروری کو اردو، انگریزی اور تلگو کے لیے متوازی نشستیں منعقد ہوئیں

 

۔ ڈاکٹر شمس الدین ترورکاڈ اور امام باشا نے صدارت کی اور مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر بی بی عائشہ، شیخ اکرام اللہ عمری اور دیگر اسکالرس اور طلبہ نے مقالے پیش کیے۔ متوازی نشستوں میں انگریزی اور تلگو میں بھی غیر افسانوی ادب پر مقالات پیش کیے گئے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر سریش کمارنے کی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر رتناشیلامنی نے شرکت کی۔ مہمان اعزای پروفیسر جی اوما مہیشور راؤ اور ڈاکٹر کوی کوٹیشورلو نے خطاب کیا۔اختتامی نشست میں سامعین اور مقالہ نگاروں نے اپنے تاثرات پیش کیے۔ ڈاکٹر شہباز، ڈاکٹر فوزیہ اور ڈاکٹر شبیر باشا نے ہدیہ تشکر پیش کیا اور مقالہ نگاروں میں اسناد تقسیم کئے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *