بی سی طبقات کے ساتھ ناانصافی ناقابل قبول۔
کانگریس حکومت فوری طور پر تحفظات میں اضافہ کرے۔
محض مختصر بحث سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، عوامی جانچ کے لیے سروے رپورٹس جاری کی جائیں۔
آئین کے تحفظ کی بات کرنے والے راہول گاندھی بی سی معاملے میں پیچھے کیوں ہٹ رہے ہیں؟
بی سی تحفظات میں اضافہ کیے بغیر مقامی انتخابات منعقد نہ کیے جائیں۔
ریونت ریڈی نے یومِ جمہوریہ پر کسانوں سے کئے وعدہ کو پورا نہیں کیا، کسان امداد سے تاحال محروم۔
*کے سی آر کی مخالفت میں کسانوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے: رکن کونسل کویتا کا پریس کانفرنس سے خطاب*
رکن تلنگانہ قانون ساز کونسل بی آر ایس کلواکنٹلہ کویتا نے کانگریس حکومت کی جانب سے جاری کردہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کے سروے پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اسے ”غیر شفاف اور گمراہ کن” قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ جاری کردہ تفصیلات حقیقت سے بعید ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس حکومت بی سی طبقات کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے اور ان کے حقوق کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔بی آر ایس قائد کویتا کریم نگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔
کویتا نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت واقعی بی سی طبقات کے ساتھ انصاف کرنا چاہتی ہے تو فوری طور پر اسمبلی میں بل پیش کرکے بلدیاتی انتخابات میں ان کے لیے ریزرویشن میں اضافہ کرے۔ صرف مختصر بحث سے بی سی طبقات کے حقوق محفوظ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ”کانگریس حکومت بی سی طبقات کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے؟انہوں نے یاد دلایا کہ کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے ”ہماری آبادی جتنی، ہمارا حق اتنا” کا نعرہ دیا تھا۔ مزید کہا کہ راہول گاندھی جو ملک بھر میں آئین کی حفاظت کے نام پر دورے کر رہے ہیں، وہ بی سی طبقات کے معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ انہوں نے واضح کیا کہ بی سی طبقات کے لیے 46.3% فیصد اور مسلم بی سی کے لیے 10%فیصد، یعنی مجموعی طور پر 56% فیصدریزرویشن لازمی طور پر نافذ کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مردم شماری کے اعداد و شمار میں پائے جانے والے تضادات کو اجاگر کرتے ہوئے کہاکہ2011 کی مردم شماری کے مطابق، تلنگانہ میں 83 لاکھ مکانات تھے اور کل آبادی 3.5 کروڑ تھی۔2014 میں کے سی آر دورِ حکومت کے جامع سروے میں 1.03 کروڑ مکانات اور آبادی 3.68 کروڑ ریکارڈ کی گئی تھی۔
صرف چار سال میں 20 لاکھ مکانات کا اضافہ ہوا، تو 2014 سے 2024 کے درمیان 60 لاکھ کا اضافہ ہونا چاہیے تھا۔لیکن حالیہ کانگریس حکومت کے سروے میں صرف 1.15 کروڑ مکانات اور 3.70 کروڑ آبادی درج کی گئی، جو حقائق پر مبنی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی حساب سے تلنگانہ میں 50 تا 52 فیصد بی سی آبادی ہے، مگر حکومت نے جان بوجھ کر اسے 46.2 فیصد ظاہر کیا، جو کہ بی سی طبقات کے ساتھ ایک اور ناانصافی ہے۔بی آر ایس قائدکویتا نے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی سے استفسار کیا کہ کیا وہ اس غیر حقیقی مردم شماری کو درست تسلیم کرتے ہیں؟۔
رکن کونسل کویتا نے کانگریس حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بی سی، ایس سی اور ایس ٹی طبقات کی آبادی کو کم کرکے پیش کرنا اور او سی (اوپن کیٹیگری) کی آبادی کو بڑھا چڑھا کر دکھانا ایک منصوبہ بند سازش ہے۔انہوں نے سوالات اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا او سی آبادی کے بڑھنے سے بی سی، ایس سی اور ایس ٹی طبقات کی آبادی کم ہو جائے گی؟،حکومت اس کے پیچھے کارفرما مقاصد کی وضاحت کیوں نہیں کر رہی ہے؟،آخر بی سی آبادی کو جان بوجھ کر کم کیوں ظاہر کیا جا رہا ہے؟
کویتا نے واضح کیا کہ کے سی آر دورِحکومت میں ”سکّل جنا سروے” کے ذریعے بی سی، ایس سی، اور ایس ٹی طبقات کے حقوق کے تحفظ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اسی سروے کی بنیاد پر متعدد فلاحی اسکیمیں نافذ کی گئیں، لیکن کانگریس حکومت نے اس جامع سروے کو نظرانداز کر کے بی سی طبقات کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔
انہوں نے کانگریس حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مردم شماری کے تمام ڈیٹا کو عوامی جانچ کے لیے پیش کرے۔3.5 کروڑ سروے دستاویزات کو اسکروٹنی کے لیے عام کیا جائے۔کم از کم 15 دن کا وقت دیا جائے تاکہ عوام اس مردم شماری کی جانچ کر سکیں۔بی سی طبقات کے تحفظات میں اضافہ کرکے اسمبلی میں بل پیش کیا جائے۔تحفظاتمیں اضافے کے بعد ہی انتخابات کرائے جائیں۔
کلواکنٹلہ کویتا نے کہا کہ کانگریس حکومت نے تلنگانہ جاگروتی اور بی سی تنظیموں کی جدوجہد کے بعد مجبور ہو کر یہ اعداد و شمار جاری کئے ہیں، لیکن پھر بھی شفافیت سے کام نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت بی سی طبقہ کے لیے واقعی مخلص ہے تو اسے سروے کے نتائج کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی کو اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔ انہوں نے 26 جنوری کو رعیتوبندھو فنڈز جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن تاحال یہ فنڈز جاری نہیں کیے گئے، جس سے کسانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔
انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ کالیشورم پراجیکٹ کے تحت پانی فراہم نہ کر کے ریاست کو خشک سالی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کے کسان حکومت کی ناقص پالیسیوں کے سبب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کویتا نے مزید کہا کہ میڈی گڈہ پراجیکٹ کے حوالے سے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اس منصوبے کو ناکارہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پراجیکٹ کو فوری طور پر بحال کیا جائے تاکہ کسانوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس حکومت نے بہار اور کرناٹک میں بھی بی سی طبقات کے ساتھ دھوکہ کیا، اور اب تلنگانہ میں بھی وہی سازش دہرائی جا رہی ہے، لیکن بی سی طبقات اس مرتبہ خاموش نہیں رہیں گے۔کویتا نے پر زور اندا ز میں کہا کہ ہم بی سی طبقات کے ساتھ ناانصافی ہونے نہیں دیں گے اور عوامی تحریک کے ذریعے حکومت کو اس غلطی کو درست کرنے پر مجبور کریں گے۔