راہل گاندھی آج مودی حکومت پر کچھ الگ ہی انداز میں حملہ کرتے نظر آئے، نہ انھوں نے اپنی آواز اونچی کی اور نہ ہی جارحانہ رخ اختیار کیا، بلکہ انتہائی پختگی کے ساتھ واضح انداز میں اپنی بات رکھی۔
صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی تقریر پر لوک سبھا میں شکریہ کی تجویز کے دوران حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی آج کچھ الگ ہی انداز میں نظر آئے۔ 3 فروری کو جب وہ لوک سبھا میں بول رہے تھے تو تہذیب، پختگی اور بے باکی کی مثال معلوم پڑ رہے تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب کے دوران نہ ہی آواز بہت اونچی کی اور نہ ہی جارحانہ رخ اختیار کیا، بلکہ مودی حکومت پر حملہ کرنے کے لیے حقائق سامنے رکھتے گئے۔ انھوں نے واضح پالیسی کے ساتھ ایک پختہ ذہن سیاسی لیڈر کی طرح ملک اور اس کے عوام کی فکر کو سامنے رکھا۔
راہل گاندھی کی اس تقریر پر جب میڈیا نے کانگریس کے کچھ سرکردہ لیڈران سے رد عمل مانگا تو پرینکا گاندھی سمیت دیگر لیڈران ان کی خوب تعریف کرتے نظر آئے۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’جب سے میں پارلیمنٹ میں آئی ہوں، تب سے کئی طرح کی تقریریں ہوئی ہیں۔ آج جیسی تقریر راہل گاندھی نے دی، تقریر ایسی ہی ہونی چاہیے، جس میں لیڈر ملک کے لیے اپنے ویزن کے بارے میں بات کرے۔‘‘
کانگریس رکن پارلیمنٹ کے سی وینوگوپال نے تو راہل گاندھی کی تقریر کو تاریخی تقریروں میں سے ایک قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’راہل گاندھی کی یہ تقریر پارلیمنٹ میں اب تک کی سب سے تاریخی تقریروں میں سے ایک ہے۔ جو کچھ آج راہل گاندھی نے کہا، وہ بصیرت افروز تھا۔ الزام تو کوئی بھی لگا سکتا ہے، لیکن سبھی نے دیکھا کہ انھوں نے بے روزگاری اور ذات پر مبنی مردم شماری سے متعلق اپنی بات کس طرح رکھی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’راہل گاندھی نے مہاراشٹر اسمبلی انتخاب میں ہوئی (مبینہ) دھاندلی کا پردہ فاش کیا اور بتایا کہ ملک میں جمہوریت کس طرح خطرے میں ہے۔‘‘
رکن پارلیمنٹ اور سینئر کانگریس لیڈر ششی تھرور نے بھی راہل گاندھی کی تقریر کو خوب پسند کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’راہل گاندھی نے آج خاص طور سے ان چیلنجز کے بارے میں بات کی جن کا مقابلہ کر کے ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بننا ہے۔ انھوں نے پیداوار کی اہمیت اور معاشرے کے تمام طبقات کی ہر شعبہ میں شرکت کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے آئین کے تحفظ کے لیے انتخابی عمل کی شفافیت پر بھی کچھ اہم باتیں رکھیں۔ آپ جس کی توقع کر رہے ہوں گے، آج راہل گاندھی اس سے بالکل مختلف انداز میں نظر آئے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اچھا ہوا وزیر اعظم بھی وہیں بیٹھے تقریر سن رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ راہل جی نے جو دلائل پیش کیے ہیں، وہ حکومت کے لیے لائق غور و فکر ہیں۔‘‘
ایک دیگر کانگریس رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی نے راہل گاندھی کی تقریر کو مثبت، پُرزور اور اثردار ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’راہل گاندھی کی تقریر بہت ہی مثبت، پُرزور اور اثردار تھی، کیونکہ اس میں ہندوستان کے لیے ایک نئی سمت نظر آ رہی تھی۔ راہل گاندھی ملک کے نوجوانوں کو تعلیم و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں آگے بڑھنے کے لیے راغب کر رہے تھے، تاکہ ملک کی صنعت چینی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’افسوسناک بات ہے کہ آج ہندوستان میں بیشتر درآمدات چین سے ہو رہے ہیں اور گزشتہ کچھ سالوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ان حالات سے کیسے باہر نکلا جائے، اس بارے میں راہل گاندھی نے کئی اہم باتیں سامنے رکھیں۔ راہل جی کی باتوں سے آج بی جے پی اس لیے بھی خوفزدہ ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔‘‘
کارتی چدمبرم نے بھی لوک سبھا میں کی گئی راہل گاندھی کی تقریر پر اپنی پسندیدگی ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ایک اچھی طرح سے تیار مدلل تقریر تھی۔ میرے خیال میں انھوں نے ملک کے بنیادی ایشوز کی نشاندہی کر دی ہے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں واقعی پروڈکشن اور مینوفیکچرنگ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ان کی تقریر حکومت کے لیے غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کا ایک اچھا نسخہ پیش کرتی ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔