عبدالرحمان عمری، ریاض“محترم تابش مہدی آپ بہت یاد آئیں گے”
سربلندی کی خواہش ہے دل میں اگر
سر اٹھا کر کبھی مت چلا کیجیے
آئینہ پہلے خود آپ دیکھا کریں
انگلیاں پھر کسی پر اٹھایا کريں
بزم تابش پر ایسے خوب صورت اشعار کے خالق خوش مزاج استاذ محترم ڈاکٹر تابش مہدی کے وفات کی خبر جب ڈاکٹر خالد عمری حفظہ اللہ نے دی تو کلیجہ منہ کو آگیا- اللہ آپ کو غریق رحمت کرے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
ڈاکٹر تابش مہدی سے میری پہلی ملاقات 1986 میں ہوئی جب میں نے جامعة الفلاح بلريا گنج اعظم گڑھ میں داخلہ لیا- پہلے دن سے آپ کی غیرمعمولی محبت حاصل رہی اور اس محبت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ مغرب سے عشاء کے درمیان قرآن مجید تجوید کے ساتھ آپ نے پڑھانا شروع کیا اور تکمیل قرآن کے بعد شهادة التجويد بھی مرحمت فرمائی-
تقریبا تین سال میں نے جامعة الفلاح میں گذارے اور اس قدر والہانہ محبت تھی کہ اکثر عشائیہ میں ان ہی کے ساتھ کرتا اور اپنا بیشتر حصہ بھی مجھے کھلا دیتے تھے- جامعہ دارالسلام عمرآباد تامل ناڈو سے انہیں غیرمعمولی محبت تھی اس لیے وہ اکثر اس بات پر زور ڈالتے تھے کہ عمرآباد میں تعلیم حاصل کرو اسی کے پیش نظر کئی طلبہ نے عمرآباد کا رخ کیا-
میں نے بھی دارالسلام عمرآباد میں داخلہ لیا اور اسی حوالے سے عمری کا ٹائیٹل میرے نام کے ساتھ ہے- عمرآباد میں 1992 کو ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس میں استاد محترم کی غزل میں نے ان ہی کے انداز میں پیش کی ، کافی داد ملی البتہ مولانا ابوالبیان حماد عمری اور مولانا حبیب الرحمن زاہد عمری رحمہما اللہ نے مجھ سے یہ کہا کہ تم طبع آزمائی کیوں نہیں کرتے پہر میں نے دوسرے سال 1993 کے مشاعرے کے لیے غزلیں لکھیں اور ان دونوں نے تصحیح کی-مرآباد سے فراغت کے بعد جب جامعہ ملیہ اسلامیہ – دہلی میں داخلہ کی غرض سے آیا تو پہلی ملاقات استاذ محترم تابش سے ہوئی اور انہوں نے اسی پیار بھرے لہجے میں مجھے مخاطب کیا جس طرح پہلے کیا کرتے تھے کہ”بیٹا کیسے ہو” اس وقت میں نے اپنی ایک غزل بھی انہیں سنائی اس پر انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ “میں نے تمہیں قاری بنایا تھا ، شاعر بھی بن گئے”-
وہ جس کو چاہتے تھے ٹوٹ کر چاہتے تھے- سعودی عرب سے جب بھی چھٹی گیا اگر دہلی میں مقیم رہا تو ضرور ملاقات کرتا اور ان کے مفید مشوروں سے مستفیض ہوتا-سعودی عرب دس سال گذار کر 2017 میں میری فیملی دارالسلطنت دہلی منتقل ہوگئی اور تقریبا ایک سال استاذ محترم کے بہت قریب رہا-
اس بار تعطیل گرما میں آپ سے ناسازئ طبع کے باعث ملاقات نہ ہوسکی البتہ آپ کے صاحب زادے مولانا اجمل فاروق صاحب سے آپ کی خیریت ملتی رہتی تھی-میرے چند ادب نواز احباب نے 1993 کی میری چند غزلیں سنی تھیں اس لیے انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ یہ سلسلہ ازسرنو شروع کیا جائے- میں نے سب سے پہلے انہیں ایک طرحی نعت 26 ستمبر 2024 کو شام آٹھ بجکر چودہ منٹ پر ارسال کی اور اپنی طبیعت کی خرابی کے باوجود آٹھ بجکر چوالیس منٹ پر تصحیح کرکے بھیج دی اور مزید مجھے لکھا کہ آپ ہندستان تشریف لائیں ملاقات بھی ہو اور تفصیلی گفتگو بھی- کل میری طبیعت اچانک زیادہ خراب ہوگئی تھی مزید میری دلجوئی کے لیے ایک جملہ لکھا کہ آپ میں شعرگوئی کی صلاحیت ہے ، اسے سنجیدگی سے آگے بڑھائیے- اس کے بعد کئی غزلوں کی آپ نے تصحیح کی- آخری غزل 14 دسمبر 2024 کو میں نے بھیجی اس کی تصحیح انہوں نے نہیں کی اس لیے کہ ان کی طبیعت مستقل خراب ہوگئی۔
31 دسمبر 2024 کو سرما کی چھٹی پر دہلی میں موجود تھا آپ سے ملاقات ہوئی نمدیدہ آنکھوں سے مجھے رخصت کرتے ہوئے کہا کہ “بیٹا آپ نے شعرگوئی میں بہت دیر کردی”-
کل سے مختلف گروپس پر آپ کی شخصیت اور آپ کی تعلیمی لیاقت پر سیر حاصل گفتگو ہو رہی ہے اللہ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اسے نجات کا ذریعہ بنائے-
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا