نئی دہلی: اجمیر میں اردو میڈیم کے 8 اسکولوں کو حال ہی میں ہندی میڈیم اسکولوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مقامی مسلم برادری میں بڑے پیمانہ پر برہمی پھیل گئی ہے۔
اِس فیصلہ نے مسلمانوں کے خلاف دانستہ ثقافتی اور مذہبی امتیاز برتنے کے الزامات کو جنم دیا ہے کیونکہ بیشتر متاثرہ اسکول کئی دہائیوں سے برادری کی خدمت کررہے تھے۔
کلیرین کی اطلاع کے مطابق بیکانیر میں واقع محکمہ ثانوی تعلیم کے ڈائرکٹر نے 17 جنوری کو سرکاری حکم جاری کرتے ہوئے اجمیر کے کئی اردو میڈیم اسکولوں کو ہندی میڈیم اداروں میں تبدیل کرنے کی ہدایت دی۔ متاثرہ اسکولوں میں گورنمنٹ پرائمری اردو اسکول بدباؤ اور گورنمنٹ گرلز ہائی پرائمری اردو اسکول بھی شامل ہیں جو 1941 سے کارکرد تھے۔
مقامی والدین اور اجمیر کے شہریوں نے اس فیصلہ پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ اس اقدام سے مسلم بچوں کے تعلیمی حقوق کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ ایک متفکر والد نے دھرنا کے مقام پر موجود گروپ کی جانب سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے کلچر اور زبان پر حملہ ہے۔
اردو ہمارے ورثاء کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ اقدام اس کے لئے راست خطرہ ہے۔ مذکورہ اسکولس زیادہ تر مسلم علاقوں میں واقع ہیں اور ہندی میڈیم اسکولوں میں ان کی تبدیلی کو کئی افراد مقامی تعلیمی منظر نامہ سے اردو کو مٹانے کی دانستہ کوشش تصور کررہے ہیں۔ والدین کے مطابق اس تبدیلی سے مسلم طلبہ کے لئے تعلیمی مواقع گھٹ جائیں گے، خاص طور پر ان کے لئے جو اردو ذریعہ تعلیم کو زیادہ آسان تصور کرتے ہیں۔
مقامی عوام نے اجمیر کے ضلع کلکٹر اور راجستھان کے چیف منسٹر بھجن لال شرما کو ایک یادداشت پیش کی ہے اور ان سے اس فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل کی ہے۔ ایک مقامی کمیونٹی لیڈر محمد رضا نے بتایا کہ ہم نے اس فیصلہ کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت ہمارے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کررہی ہے اور ہم اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔
اس تنازعہ نے سیاسی رخ بھی اختیار کرلیا ہے اور کئی افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ اس اقدام کے پیچھے ریاستی وزیر تعلیم مدن دلاور کا ہاتھ ہے۔ کمیونٹی کے نمائندوں کے مطابق دلاور کے اقدامات کو مسلمانوں کے تعلیمی حقوق پر راست حملہ تصور کیا جارہا ہے۔
اسکول جانے والے 3 بچوں کی ماں شہناز بیگم نے بتایا کہ یہ صرف زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے بچوں کو ان کی شناخت سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ وزیر تعلیم ہماری ریاست کے ثقافتی تنوع کا کوئی لحاظ نہیں کرتے اور اس کے دیرپا اثرات ہوں گے۔