نئی دہلی: کانگریس قائد راشد علوی نے مجوزہ یکساں سیول کوڈ (یو سی سی) کے نفاذ پر مرکز اور حکومت ِ اتراکھنڈ کو نشانہ ئ تنقید بنایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ قانون نہ صرف ایک مخصوص برادری سے بھیدبھاؤ اور جانبداری برتتا ہے بلکہ وہ اقلیتوں کی نفی کرتا ہے۔
راشد علوی نے آئی اے این ایس سے بات چیت میں کہا کہ ایسے یکطرفہ فیصلوں سے صرف فرقہ وارانہ اور سماجی ہم آہنگی کمزور ہوتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سبھی فریقوں کی رائے لی جانی چاہئے۔ انہوں نے گوا کی مثال دی۔ گوا یکساں سیول کوڈ والی واحد ریاست ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جانبدارانہ قانون ہے۔ ہندو مرد کو مسلمان اور عیسائی مردوں کے مقابلہ مخصوص فوائد حاصل ہیں۔ انہوں نے حکومت کے موقف پر سوال اٹھایا اور کہا کہ یکساں سیول کوڈ پر عرصہ سے بحث جاری ہے لیکن ہمیں اب تک پتہ نہیں کہ مرکزی حکومت اصل میں چاہتی کیا ہے۔ وہ گوا میں اسے لاگو کرچکی ہے اور اتراکھنڈ میں اسے لاگو کرنے والی ہے۔
اسے قومی قانون کیوں نہیں بنایا جاتا؟ حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ راشد علوی نے گوا میں یکساں سیول کوڈ کی ایک خاص دفعہ کی نشاندہی کی جس کے تحت ہندو مرد کو بیوی بچہ پیدا کرنے سے قاصر ہو تو دوسری شادی کا حق حاصل ہے جبکہ یہ سہولت مسلمان یا عیسائیوں کو حاصل نہیں۔ یہ کس قسم کا یکساں سیول کوڈ ہے۔
دستور کی دفعہ 44 میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو یکساں سیول کوڈ لاگو کرنا چاہئے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ جبراً لاگو کیا جائے۔ حکومت کو آگے بڑھنے سے قبل اقلیتوں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے صلاح و مشورہ کرنا چاہئے۔
کانگریس قائد نے اتراکھنڈ وقف بورڈ کے ریاست میں ماڈل مدرسے قائم کرنے کے حالیہ فیصلہ پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے اس کی اس پہل کو غیردستوری اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی قراردیا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو اپنے مدرسے‘ اسکول اور کالجس کھولنے اور چلانے اور مذہبی تعلیم دینے کا حق حاصل ہے۔ یہ مذہبی حق ہے۔ اب جو ہورہا ہے وہ آمریت ہے۔