[]
مضمون نگار – محمد ارشد لطیف – نظام آباد
22 جنوری کو جس طرح سے رام مندر کا افتتاح عمل میں لایا گیا ہے اس سے ہر مسلمان عام و خاص اچھی طرح واقف ہے لیکن آنے والے سیاسی و سماجی حالات جو وطن عزیز میں ہونے والے ہیں اس سے مسلمانوں کا باشعور طبہ اچھی طرح واقف ہے پچھلے چند سالوں میں مسلمانوں پر حیات زندگی تنگ سے تنگ کی جارہی ہے کئی صدیوں سے ہم جن کے ساتھ امن و سکوں سے رہ رہے تھے وہی لوگ ہمیں اب ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں اورکیوں نہ سمجھیں یہ ہماری غفلت و لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اپنے ہندو بھائیوں تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچایا بالخصوص عمل سے کیونکہ آج کا مسلمان مسلمان تو ہے لیکن بغیر اسلام کے، اگر وہ اسلام کے ساتھ مسلمان رہتا تو اشاعت دین کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی لوگ دیکھ کر ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے لیکن آج وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اسلام کے پیغام کے ساتھ ساتھ انکو خود کی صحیح تعلیمات سے بھی واقف کروائیں اور اس کے لئے پہلے خود ہمیں ہندو دھرم کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے آج ہندو مذہب کی جو تصویر ہمارے سامنے ہے یہ ان کی حقیقی تصویر نہیں ہے بلکہ ہندو دوھرم اس سے بہت مختلف ہے۔ آئیں آج ہم ان کی مقدس کتابوں یعنی ویدوں جن کو یہ آسمانی کتاب مانتے ہیں سے ہندو دھرم کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہندو دھرم کا اصل نام ہندو دھرم کا اصل نام سناتن دھرم اور شاشوت دھرم ہے ہندو تو جغرافیائی نام ہے اور سناتن کا معنی ہے صدیوں سے سیدھا چلا آیا ہوا راستہ اور شاشوت کا معنی آسمان سے زمین تک سیدھا چلا آیا ہوا راستہ سناتن دھرم اور شاشوت دھرم دین قیمہ اور دین قیم کے ہم معنی الفاظ ہیں گیتا میں اسکے لئے سودھرم اور سوبھاونیت کرم کے الفاظ استعال ہوئے ہیں جسکے معنی فطرت کا سکھایا ہوا ناکہ ماں باپ کا سکھایا ہوا اور قرآن بھی اسلام کو الدین عنداللہ الاسلام کہتا ہے کہ دین قیم اور دین فطرت بتاتا ہے اور اللہ کے نبیﷺ کی حدیث بھی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے کیونکہ دین اسلام فطرت پر مبنی ہے
ہندو مذہب کا عقیدہ توحید – عقیدہ توحید کوویدوں میں دیکھنے سے پہلے چند مشہور ہندو مصنفین کے اس سلسلے میں کچھ حوالے دیکھ لیجئے – (1) رشیوں نے مورتی پوجا کا طریقہ رائج کیا تاکہ وہ اس مورتی کو ذریعہ بناکر اس لا محدود ہستی کو جسمانی شکل میں اپنے سا منے دیکھ سکیں – ( وشنو رہسیہ ص 149 )(2) ذرا سوچوتو محبت کرنے والی بیوی کا ایک ہی شوہر ہوتا ہے اسی لئےجو پرستار ایمان رکھتا ہے اسکا ایک ہی خدا ہے دوسرے خداؤں کا ساتھ ہرگز نہ ڈھوڈے دوسرے خداؤں کا نام لینا بدکاری ہے – ( اسلام کا ہندو تہذیب پر اثر ڈاکٹر تاراچند ص 153-54)اب ملاحظہ فرمائیں ہندو مذہبی کتب کے سیکڑوں ثبوتوں میں سے چند حوالے جن کی بنیاد پر ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اصل ہندو مذہب ایک خدا کا تصور بالکل اسی انداز میں دیتا ہے جیسے اسلام نے پیش کیا ہندو ویدانت کا برہم سوتر یعنی کلمہ توحید مندرجہ ذیل ہے ” ایکم برہم دویتیہ ناستے نیہہ نا ناستے کنچن ” ایک ہی خدا ہے دوسرا نہیں ہے نہیں ہے نہیں ہے ذرا سا بھی نہیں ہے – ویدانت ہی میں کہا گیا ہے کہ “ایکم ایوم ادوئتم ” وہ ایک ہی ہے دوسرے کی شرکت کے بغیر – ہندو مذہب میں جتنے خداؤں کے نام لئے جاتے ہیں وہ دراصل ایک خدا کے صفاتی نام ہیں اسکا نام برہما ہے اسی کا نام وشنو وہی اندر اور اسی کا نام سرسوتی ہےاس کا ثبوت ویدوں ہی سے ملتا ہے – ” اے اگنی (خدائے واحد) تم ہی نیکوں کی دلی تمنائیں پوری کرنے والے اندر ہو تم ہی عبادت کے قابل ہو تم ہی بہت لوگوں کے قابل تعریف وشنو ہو تم برہما اور برہمنسپتی ہو- ” رگ وید 2-1-3
ویدک دھرم اور رسالت : برہما اپنے جسم کے دو حصے کرکے ایک سے مرد اور دوسرے سے عورت ہوئے اور اسی طرح بہت سے جانداروں کی تخلیق ہوئی – ( کلیان گورکھپوری – ہندو سنسکرتی جنوری 1950 ص 295
کسی مسلمان کی جیسے ہی اس حصے پر نظر پڑیگی وہ فورا پہچان لے گا کہ یہ سیدنا آدم ؑ کی بائیں پسلی سے سیدہ حواؑ کی پیدائش اور ان دونوں سے پوری نسل انسانی کی افزائش کا ذکر ہے ۔جب بھی بھلائیاں کم ہوکر گناہ بہت بڑھ جاتے ہیں تو “ہری ” جو تما م خداؤں کا خدا ہے وہ یقینا (رہنمائی کیلئے ) ایک جا ن پیدا کرتا ہے – ( شری مدبھاگوت مہاپران 9 – 34 – 56 )یہ تھا رسولوں کے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد اب سیدنا نوح ؑ اور طوفان نوحؑ سے معلق چند حوالے ہم نقل کررہے ہیں ملاحظہ فرمائیں – مختصر یہ کہ ایک مشہور شخصیت جوکہ ہندوؤں کے پاس بہت مقدس ہے اور جسے وہ مہانوؤ کے نام سے جانتے ہیں سیلاب کی تباہی سے ایک کشتی کے ذریعہ بچ نکلی جس میں سات مشہور رشی سوار تھے مہا نوؤ دو لظوہں مہا اور نوو کا مرکب ہے مہا کے معنی عظیم اور نوو بلا شک و شبہ سیدنا نوحؑ ہیں-
Dubois hindu manners customs and ceremonies p 48
بھوشیہ پران کے بیانات تو اتنے واضح ہے کہ ان میں کوئی مصنوعی تحریف ممکن نہ تھی البتہ دوسرے مقامات پر جہاں سیدنا محمدﷺ کی رسالت کی پیش گوئیاں ہیں وہاں ترجمے بدلے گئے ہیں مثلا شری مدبھاگوت پران میں موجود اس اشلوک کو دیکھئے ” اگیان ہیتو کرت موح مدا ندھکار ناشم ودھایم ہی تددیتے ویویکہ ‘ ترجمہ جب بےشمار ادوار حیات میں اجتماعی خیر کے طلوع ہونے سے انسان کو فیضان حاصل ہونے والا ہو تب محمدﷺ کے ذریعہ تاریکیوں کا خاتمہ ہوکر فہم و حکمت کا نور طلوع ہوگا ” ( شری مدبھاگوت مہا تم پران )
سیدنا نوح ؑ کی امت کا نبی کھویا ہوا ہے – ہندو قوم رامائن اور مہا بھارت کو انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں تسلیم کرتی ہیں لیکن ویدوں کے بارے میں انکے سواد اعظم کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ کلام الہٰی ہے اسکے باوجود وہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ کس رسول کے ذریعہ دنیا میں آئے اپنے نبی کو انھوں نے دیو مالاؤں میں گم کردیا دنیا کی ہر مذبی قوم کسی نہ کسی شخصیت کو اپنی مذہبی کتب سے منسوب نبی مانتی ہے لیکن ہندو قوم وہ واحد مذہبی قوم ہے جسکا اصل نبی کھویا ہوا ہے اس حقیقت پر نظر رکھیں اور بخاری شریف کی مندرجہ ذیل حدیث غور کریں – سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سیدنا نوح ؑ کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ انھوں نے اپنی امت کو احکام خداوندی پہنچائے تھے وہ عرض کرینگے بے شک اے میرے پروردگار پھر سیدنا نوحؑ کی امت سے پوچھا جائے گا کہ کیا نوحؑ نے تم تک ہمارے احکام پہنچائے تھے وہ لوگ انکار کرینگے اور کہینگے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ور پھر نوح ؑ سے پوچھا جائے گا تمہارے گواہ کون ہیں وہ کہینگے میرے گواہ سیدنامحمدﷺ کی امت کے لوگ ہیں اسکے بعد رسولﷺنے فرمایا تب تمیںا پیش کیا جائےگا اور تم یہ گواہی دوگے کہ سیدنا نوحؑ نے احکام پہنچائے تھے – اب ذرا غور فرمائیں ایک طرف تو حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا نوحؑ کی امت اپنے رسول کو پہچاننے سے انکار کردیگی اور دوسری طرف ہم یہ جانتے ہیں کہ تمام مذہبی قوموں میں صرف ہندو قوم کا نبی کھویا ہوا ہے
کیا ہندو قوم قوم نوح ہے ؟ ویسے بھی ویدک دھرم دنیا کے تمام مذاہب میں متفقہ طور پر سب سے پرانا مذہب ہے اور سیدنا نوح ؑ دنیا کے سب سے پہلے صاحب شریعت رسول تھے – ہندوؤں میں یہ قصہ مشہور ہے کہ ایک مشہور شخصیت جس سے ہندووں کو بہت عقیدت ہے اور جسے وہ مہا نووکے نام سے جانتے ہیں سیلاب کی تباہی سے بچ نکلی جس میں سات مشہور رشی بھی سوار تھے ——- مہانوو دو الفاظ کا مرکب ہے مہا کے معنی عظیم اور نوو بلاشک و شبہ سیدنا نوح ہی ہیں ویدوں میں سیدنا نوح ؑکا ذکر منو کے نام سے 5 مقامات پر آیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اقوام کا اپنے انبیاء سے تعلق کا ایک مظہر ہوتا ہے کہ وہ ان کے زمانے سے اپنا سال یا سن شمار کرتے ہیں جیسے مسلمان سن ہجری سیدنا محمدﷺ کی ہجرت سے شمار کرتے ہیں اور عیسائی اپنا سال سیدنا عیسی ؑ کی وفات سے اور اسی طرح ہندوو قوم اپنے اہم واقعات کو سیدنا نوح ؑ سے گنتی ہے اسکے لئے وہ سیدنا نوحؑ کے سیلاب سے ہر ساٹھ 60 سال کے وقفہ کو ایک اکائی یا ایک سال مانتے ہیں اور ان سالوں سے اپنے اہم واقعات کو شمار کرتے ہیں اور اس قوم کا سیدنا نوحؑ ( ان کی زبان میں منو ) سے خصوصی تعلق ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کی مذہبی کتب میں منو اسمرتی کو ایک خاص مقام حاصل ہے
عقیدہ آخرت اور پنر جنم – آخرت کا عقیدہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ تمام مذاہب اور تمام قوموں میں بہت بڑے گروہ ایسے ہیں جو توحید یعنی ایک خدا کے ماننے والے رسالت کا تصور بھی ان تمام گروہوں میں کافی واضح ہے حالانکہ آخری رسول محمدﷺ کا اقرار وہ نہیں کرتے لیکن بنیادی عقیدہ میں سے آخرت ہی ایک ایسا عقیدہ ہے جو ان سب کے یہاں مسخ ہوچکا ہے یوم آخر جزاء وسزاءاور جنت ودوزخ کا واضح تصور ان کے یہاں نہیں ہے کسی کے یہاں آواگون کا عقیدہ ہے کوئی یوم آخر کو مانتا ہی نہیں اور کوئی حساب کتاب کا انکار کرکے یہ کہتا ہے سیدنا عیسی نے پھانسی چڑھ کر نعوذباللہ سب کے گناہ معاف کروادئے موجودہ توریت زبور انجیل میں بھی آخرت کا تصور بہت مبہم اور دھندلایا ہوا ہے لیکن ویدوں میں بہت تفصیل کے ساتھ دوسری زندگی جزاءوسزاء جنت و دوزخ کے بیانات بہت صاف ستھری شکل میں موجود ہیں آواگون کا عقیدہ ہندو سماج میں بہت بعد کے دور میں آیا ہے کسی عام ہندو سے معلوم کیجئے اگر جزاء وسزاء کے طور پر بار بار اسی دنیا میں مختلف جگہوں میں پیدا ہوتے رہنا ہے تو تمہاری مذہبی کتابوں میں سورگ ( جنت) نرک ( دوزخ ) پرلوگ ( دوسری دنیا آخرت ) اور یم دوت موت کے فرشتے کا کیا مطلب ہے وہ آپ کو کچھ نہ بتا سکے گا بیشتر ہندو پنڈت بھی ان کی بے تکی تاویلیں کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ویدوں سے مکمل طور پر کٹ جانے کی وجہ آخرت کے عقیدے میں بگاڑ آیا
ہندو اور مسلمانوں کی مشترک اقدار : ( 1) ہندو دنیا کی سب سے پہلی شریعت والی قوم ہے اور مسلمان آخری شریعت والی قوم ہے اور اللہ نے ان دونوں کو ایک ہی ملک ہندوستان میں اکٹھا کردیا
(2) ہندوستان کے جتنے بھی منادر ہیں وہ تمام قبلہ رخ تعمیر کئے گئے ہیں مسلمان تو جانتے ہیں کہ مسجدوں کا قبلہ رخ کیوں ہیں لیکن ہندو نہیں جانتے کہ وہ کیوں اپنے مندروں کو قبلہ رخ تعمیر کرتے ہیں
(3) ہندوؤں کی چتا کا رخ شمالا جنوبا ہوتا ہے اور یہی رخ مسلمانوں کی قبروں کا بھی ہوتا ہے
(4)مسلمان حج و عمرہ کے موقع پر کعبہ کے سات طواف کرتے ہیں اور ہندو شادی بیاہ کے موقع پر اگنی کے سات پھیرے لیتے ہیں
(5)حج و عمرہ کے موقع پر مسلمانوں کیلئے بال کتروانا لازم اور منڈوانا افضل ہے اور ہندو تیرتھ کے موقع پر ہزاروں سال سے اپنے بال منڈواتے چلے آرہے ہیں
(6)ہندوؤں کے نزدیک تلسی کے پودے کا اک خاص مقام ہے جبکہ تلسی کے پودے کا ذکر اک نعمت کے طور پر سورہ رحمن میں والریحان کے نام سے کیا گیا ہے
کیا آپ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ رسولﷺ نے نعوذباللہ ہندو مذہب سے یہ رسومات 1400 سال پہلے مستعار لی تھیں نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندو مذہب کا کعبہ سے دیرینہ تعلق ہے اور یہ دنیا کی واحد مذہبی قوم ہے جس نے اپنی خرافات کو روایات کی شکل میں بھی باقی رکھا ہے حقیقت فراموش ہوکر روایات باقی رہ جانے والی خرابی مسلمانوں میں بھی آچلی ہے اسی کو دیکھ کر علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا
یہ امت خرافات میں کھوگئی – حقیقت روایات میں کھوگئی