[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں یوکرائن کے بارے میں 40 ممالک کے نمائندوں کا اجلاس کسی خاص نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ مذاکرات کے اختتام پر کوئی مشترکہ بیان بھی جاری نہ ہوسکا۔ نشست میں اس بات پر تاکید کی گئی کہ کسی بھی صلح کی صورت میں یوکرائن کی جغرافیائی حدود اور اقوام متحدہ کے منشور کا مکمل خیال رکھا جائے۔
اس رپورٹ میں جدہ مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ کیا سعودی حکام کو کچھ پیشرفت کی توقع تھی یا نہیں؟
دو روزہ مذاکرات کے بعد اجلاس کے مہمانان جدہ سے چلے گئے اور ماسکو اور کیف سے مختلف ردعمل ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ روس نے جو اجلاس میں شریک نہیں تھا، اجلاس کی مذمت کرتے ہوئے بے نتیجہ اور ناکام قرار دیا۔ یوکرائن نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے اجلاس منعقد کرنے پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا۔
یوکرائنی صدر زیلنسکی نے پہلے ہی جدہ مذاکرات کو عالمی صلح کی جانب پیش قدمی قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ خزاں میں یہ اجلاس ہوجائے۔
سعودی حکام نے گذشتہ ہفتوں کے دوران توانائی، سیکورٹی اور غذائی سیکورٹی جیسے امور کی طرف اشارہ کیا تھا اور یوکرائن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ البتہ سعودی حکام نے تنازعے کے حل کے لئے اپنے پاس کوئی لائحہ عمل ہونے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ محمد بن سلمان کا رویہ ایسا تھا کہ نہ زیلنسکی کے دس نکاتی ایجنڈے کی تائید ہوتی تھی نہ کوئی اور متنازعہ ایجنڈا پیش کرنا چاہتے تھے۔
یوکرائنی صدر کے دفتر کے عہدیدار ایگور ژوکوا نے کہا تھا کہ ہم خلوص کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں جس میں ہر ملک کے نمائندے اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرسکیں۔ تمام شرکاء نے اقوام متحدہ کے اصولوں، بین الاقوامی قوانین اور یوکرائنی خودمختاری کے احترام کی رائے کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ زیلنسکی کا دس نکاتی ایجنڈا امریکہ اور یورپ نے بھی قبول کیا ہے لیکن روس اس کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ صدر پوٹن اس ایجنڈے کے کم از کم تین حساس نکات کو مسترد کرتے ہیں۔ مثلا پہلے نکتے میں کہا گیا ہے کہ زاپوریژیا کو ایٹمی بجلی گھر تعمیر نو کے بعد یوکرائن کے حوالے کیا جائے۔ اور اسی طرح پانچوان ایجنڈا یہ ہے کہ یوکرائن کے جغرافیائی حدود کو روس تائید کرے اور احترام کیا جائے۔
روس نے اجلاس میں اپنا کوئی نمائندہ نہیں بھیجا اسی وجہ سے اکثر مہمانوں کے مطابق جب تک تنازعے کے دونوں فریق حاضر نہ ہوں، کوئی حل نکلنا ناممکن ہے۔ برازیل کے نمائندے سلسو آمورم نے کہا حقیقی مذاکرات کے لئے تمام فریقوں کا حاضر ہونا لازمی ہے۔ اگرچہ یوکرائن قربانی بن گیا ہے لیکن اگر حقیقی معنوں میں صلح چاہتے ہیں تو روس کی بھی شرکت لازمی ہے۔
اگرچہ روس کا کوئی نمائندہ اس اجلاس میں شریک نہیں ہوا لیکن کریملن کے ترجمان پسکوف نے کہا تھا کہ روس دور سے اجلاس کی نگرانی کرے گا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس وقت روس اور یوکرائن براہ راست بات چیت کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں اور جنگ جاری ہے۔ پسکوف نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ روسی فورسز یوکرائنی سرزمین پر قبضے کے درپے نہیں ہیں لیکن جن علاقوں پر قبضہ کیا گیا ہے ان کو واپس نہیں کیا جائے گا۔
پسکوف اور دیگر روسی حکام کی باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نہ فقط سعودی حکام بلکہ عام شخص بھی اس سے بخوبی واقف ہے کہ ان حالات میں فریقین کے درمیان صلح کی امید رکھنا عبث ہے۔ سعودی حکام نے سیاسی مفادات کی خاطر مذاکرات کا سلسلسہ شروع کیا ہے لہذا مستقبل میں بھی اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔
اگرچہ روس نے کوئی نمائندہ نہیں بھیجا تھا لیکن چین، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ کے نمائندوں کی موجودگی کی وجہ سے سعودی حکام خوش ہوں گے جو برکس کے اراکین ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب یوکرائن جنگ کے خاتمے سے زیادہ اپنی خارجہ پالیسی اور روابط بڑھانے کی طرف توجہ کئے ہوئے ہیں۔ سعودی حکام کو بھی اندازہ ہے کہ اس طرح کی نشستوں سے جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
سعودی ولی عہد اس نشست کے ذریعے ایک سفارتی مشق چاہتے ہیں اسی لئے ایک جانب امریکہ کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا سبز چراغ دکھاتے ہیں اور دوسری طرف ایران اور ترکی جیسے خطے کے اہم ممالک کے ساتھ بھی صلح آمیز رویہ برقرار کرنا چاہتے ہیں علاوہ ازین چین اور بھارت جیسی طاقتوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مشرق وسطی کے مدیر جوسٹ ہلٹرمن کے مطابق ریاض بھارت اور برازیل کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے کیونکہ یہ متوسط طاقتیں اس وقت عالمی سطح پر موثر کردار ادا کرسکتی ہیں جب کسی بڑی تنظیم کا رکن بن جائیں۔
یورپی حکام کے مطابق سعودی عرب کئی لحاظ سے یوکرائن تنازعے میں کردار ادا کرسکتا ہے؛ پہلا یہ کہ اب بھی سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل سپلائی کرنے والا ملک ہے لہذا روسی اور مشرق وسطی کی توانائی کے ذرائع کی طرف محتاج یورپ ریاض کے ساتھ اچھے روابط کا خواہاں ہے۔ علاوہ ازین سعودی عرب نے کچھ نکات پیش کئے ہیں جن کو یورپ کی تائید حاصل ہے جن میں عالمی سطح پر غذائی سیکورٹی کو یقینی بنانا، جوہری سیکورٹی اور قیدیوں کی آزادی جیسے امور شامل ہیں۔
یورپی یونین کے اعلی حکام کے مطابق یوکرائن پر روسی حملوں کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ان ممالک کا ہونا ضروری ہے جو توانائی اور دیگر حوالوں سے روس کے برابر ہوں اور یورپ اور دنیا کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ سعودی عرب کا تعمیری کردار جنگ کی تباہ کاریوں میں کمی اور یوکرائنی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنے میں معاوں ثابت ہوسکتا ہے۔
چین کی اجلاس میں شرکت بن سلمان کی سفارتی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ چین نے اس سے پہلے ڈنمارک میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت نہیں کی تھی لیکن اس مرتبہ اپنے خصوصی نمائندے لی ہویی کو جدہ بھیج دیا۔ اس طرح مغربی سفارتکاروں کو امید ہوگئی کہ سعودی عرب چینی صدر پر اپنے خصوصی تعلقات استعمال کرتے ہوئے یوکرائن کی حمایت کرنے پر اثرانداز ہوگا۔
چین سعودی عرب کا سب سے بڑا شراکت دار اور ملک میں کئی اقتصادی منصوبوں میں شریک ہے۔ سعودی حکمران چین کے لئے خصوصی احترام کا قائل ہیں علاوہ سعودی عرب چینی ون بیلٹ منصوبے کی بھی حمایت کرتا ہے جوکہ بن سلمان کے وژن 2030 سے کسی حد تک ہماہنگ بھی ہے۔
سعودی عرب نے حالیہ عرصے میں چین سے خصوصی تعلقات قائم کئے ہیں۔ چینی صدر کا دورہ ریاض سعودی شاہی خاندان کے لئے اہم تھا جس میں سعودی بادشاہ نے شنگھائی تعاون کونسل میں رکنیت کی ذاتی طور پر خواہش کا اظہار کیا تھا۔
رائس یونیورسٹی کے محقق کرسٹن کوٹس کے مطابق چین کی شرکت اس ایشیائی طاقت کی جانب سے سعودی عرب کی سفارتی حمایت کی علامت ہے اس طرح چین اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کی فضا ہموار ہورہی ہے البتہ واشنگٹن کے مرکز اسٹمسن میں چینی امور کے سربراہ یون سون اس نکتے سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اجلاس میں چین کی شرکت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ یوکرائن تنازعے میں چین دیگر ممالک کے نظریے کی حمایت کرتا ہے۔
جدہ مذاکرات اور یوکرائن جنگ میں صلح کی پیشکش سعودی عرب کی جانب سے عالمی طاقتوں کے درمیان اپنی ساکھ کو بہتر بنانے اور روس اور امریکہ جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش ہے۔ دنیا میں تیل کی پیداوار کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناطے بین الاقوامی سیاست اور متنازعہ امور میں سعودی عرب نے غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ یوکرائن کے مسئلے میں بھی کسی متنازعہ امر کو پیش کئے بغیر ثالثی کی پیشکش کی ہے کیونکہ سعودی عرب تیل کی برامدات پر کافی حد تک اعتماد کرتا ہے۔ ان حالات میں عالمی سطح پر رونما ہونے واقعات ملک پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔
یوکرائن جنگ کو 18 مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک صلح کی کوئی امید اور آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ موجودہ حالات میں فریقین کے درمیان ثالثی بہت مشکل ہے۔ جدہ مذاکرات کے بعد مشترکہ بیان جاری نہ ہونے سے بحران کی شدت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مفادات کی جنگ، جیوپولیٹک کشیدگی، تنازعے کی پیچیدگی اور بیرونی عوامل پر عدم اعتماد ان امور میں سے ہیں جن کی وجہ سے کوئی متفقہ رائے سامنے نہیں آرہی ہے۔
مفادات کے تضاد کی وجہ سے فریقین میں سے ہر کوئی اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے اسی وجہ سے مشترکہ نکتے پر جمع نہیں ہوپارہے ہیں۔
امریکہ اور یورپ تنازعے میں کود پڑے ہیں جس کی وجہ سے مذاکرات کا عمل مزید پیچیدہ ہوا ہے۔ بیرونی نمائندے اور عوامل اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں اسی لئے جدہ مذاکرات جیوپولیٹک رقابت پر حاوی نہیں ہوسکے۔