صیہونی حکومت کو غزہ جنگ کے اخراجات میں سنگین اضافے کا سامنا، اسرائیلی میڈیا چیخ اٹھا

[]

مہر خبررساں ایجنسی نے العربی 21 نیوز سائٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ  غاصب صیہونی حکومت کو غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے بڑے پیمانے پر انسانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

صیہونی حکومت کے مرکزی بینک کے جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ جنگ میں تل ابیب کا جنگی خسارہ 67 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔

اس حوالے سے وِچ ایکریڈیٹیشن ایجنسی نے بتایا کہ ان اعداد و شمار میں لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ شمالی محاذ پر جنگ سے ہونے والے نقصانات شامل نہیں ہیں، اگر ان اعداد و شمار کو شامل کیا جائے تو یہ اضافہ غیر معمولی ہو گا۔

تل ابیب کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2023 کی آخری سہ ماہی کے دوران مقبوضہ علاقوں میں مجموعی گھریلو پیداوار میں 20 فیصد کمی اور صیہونی حکومت کا بجٹ خسارہ 6 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ دریں اثنا، کابینہ کے عوامی قرضوں میں بھی سال کے دوران 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

موڈیز ریٹنگ ایجنسی نے صیہونی حکومت کی درجہ بندی کو (A2) کر دیا، جو اس کی اقتصادی درجہ بندی کی تاریخ میں اس حکومت کی پہلی خوف ناک تنزلی ہے۔

اس کے علاوہ غزہ جنگ اور جنوبی لبنان سے مزاحمتی میزائلوں کے داغے جانے سے صیہونی حکومت کی بستیوں سے دو لاکھ صہیونیوں کو بے گھر ہونا پڑا ہے جب کہ تین لاکھ سے زیادہ ریزرو فورسز کی تعیناتی سے جنگی بجٹ میں ہو شربا اضافہ ہوا ہے۔

اس حوالے سے صہیونی اخبار Yedioth Aharonot لکھتا ہے کہ نومبر اور جنوری کے مہینوں میں صیہونی حکومت کو ریزرو فورسز پر تقریباً 160,000 ڈالر روزانہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ جنگی کابینہ نے ہر ریزرو فوجی کو 80 ڈالر یومیہ دینے کا وعدہ کیا ہے، تاہم مالی بحران کی وجہ سے ادائیگی 2024 کے آخر میں کی جائے گی۔

دوسری طرف موجودہ جنگی صورت حال کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں سے سرمایہ کاروں کے فرار میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یوں سرمایہ کاری میں تقریباً 67 فیصد کمی آئی ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں سرگرم کمپنیوں میں بھی تقریباً 75 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور صیہونی حکومت کے تعمیراتی شعبے کو ہر ہفتے 650 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں مکانات کی خرید و فروخت میں بھی گزشتہ 30 سالوں کے اندر بدترین  شرح دیکھی گئی ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *