[]
حمید عادل
ماہ اکتوبر کے پہلے جمعہ کو دنیا بھر میں مسکراہٹ کا عالمی دن منایا جاتا ہے ،ماہرین کا ماننا ہے کہ ہنسنا مسکرانا ہماری صحت کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا ورزش کرنا یا صحت مند غذا کھانا۔ایک معروف دانشورکہتے ہیں : ’’ہم میں سے کون شخص ہے جو یہ آرزو نہ کرتاہوکہ وہ کچھ دیئے بغیر ہر روز مالی صدقے کا ثواب حاصل کرلے۔‘‘نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’ اپنے (مسلمان )بھائی کے لیے تمہارا مسکرانا صدقہ ہے۔‘‘ (ترمذی)
کسی نے کیا خوب تحقیق کی ہے کہ ایک قہقہہ 50 گرام خالص گھی کے برابر ہوتا ہے، دوسری تحقیق کہتی ہے کہ ’’دن میں ایک قہقہہ لگایے اورخود کو ہارٹ اٹیک سے بچائیے ۔‘‘اورمعروف ادیب شاہد سردار لکھتے ہیں ’’ یہ آفاقی سچائی ہے کہ جس معاشرے میں قہقہہ مرجائے وہاں مسکراہٹ بیوہ ہوجاتی ہے ۔‘‘
دل سے مسکرانا تو بہت بڑی بات ہے لیکن ایک تحقیق کے مطابق اگر آپ جھوٹی مسکراہٹ بھی اپنے چہرے پر سجائیں تو آپ کا دماغ اس دھوکے میں آجاتا ہے کہ آپ خوش ہیں اور وہ قدرتی طور پر آپ کی جھوٹی مسکراہٹ کے طفیل آپ کے ذہنی تناؤ اور فکر کو کم کر کے ایسے ہارمونز پیدا کرتا ہے جو آپ کو خوش رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں،اس تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دماغ بڑا بد دماغ ہو تا ہے… غالباًاسی لیے چچا غالبؔ عشق سے متعلق برسوںقبل کہہ گئے ہیں:
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
کسی کی ہنسی سے زیادہ مسکراہٹ بڑی پرکشش ہوا کرتی ہے،مسکراہٹ جادو تو نہیں لیکن کسی جادو سے کم بھی نہیں…یہ مسکراہٹ کا جادو نہیں تواور کیا ہے کہ آپ کی مسکراہٹ کے جواب میں دوسرا فرد بھی مسکرانے پر مجبور ہوجاتا ہے، بھلے ہی وہ بے شمار دکھوں میں گھرا ہو… یعنی مسکراہٹ متعدی مرض کی طرح ایک سے دوسرے شخص تک منتقل ہوتی ہے۔یہ مسکراہٹ ہی تھی جس نے عام سے نین نقش والی خاتون مونا لیزا اور اس کے تخلیق کار لیونارڈو ڈاونچی کو رہتی دنیا تک جاوداں کردیاہے۔کسی کی مسکراہٹ یقینااس قدر دلنشین ہوتی ہے کہ اس مسکراہٹ پر قربان ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔
میں صدقے تجھ پہ ادا تیرے مسکرانے کی
سمیٹے لیتی ہے رنگینیاں زمانے کی
جمیل مظہری
’’ماہر ہنسیات‘‘ کا کہنا ہے کہ ہر دس منٹ کی گفتگو میں لوگ سات بار ہنستے ہیںلیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہونا ضروری بھی نہیں، دو منٹ کی گفتگو میں لوگ دس بار بھی ہنس سکتے ہیں اور دس منٹ کی گفتگو میں دو بار بھی نہیں ہنستے۔ عشق و عاشقی کے معاملے میں پتا نہیں ’’ ہنسی تو پھنسی ‘‘کا شگوفہ کس نے چھوڑا…حالانکہ کوئی لڑکی بنا ہنسے بھی پھنس سکتی ہے تو کوئی ہنس کر ٹال بھی دیتی ہے۔
دیکھا تھا کس نظر سے تم نے ہنسی ہنسی میں
اک درد مستقل ہے اب میری زندگی میں
محمد عثمان عارف
ہنسنے کو تو سبھی ہنستے ہیں لیکن بعض حضرات کچھ اس طرح ہنستے ہیں کہ ان پر زمانہ ہنستا ہے،البتہ دوسروں پر ہنسنا جتنا آسان ہے،خود پر ہنسنا اتنا ہی مشکل ہوا کرتا ہے۔ حضرت انسان کے علاوہ اور بھی جاندار ہیں جو ہنستے ہیں جیسے کہ گوریلے اور بن مانس وغیرہ۔سنا ہے کہ چوہے بھی ہنستے ہیں،چوہے کب ہنستے ہیں؟ کیوں ہنستے ہیں؟کیسے ہنستے ہیں؟ یہ تو ہم نہیں جانتے البتہ ہمارا ناقص خیال یہ ہے کہ چوہے اس وقت یقیناکھلکھلا کر ہنستے ہوں گے جب حضرت انسان چوہا مارنے کی چاہ میں منہ کی کھاتا ہے۔
مسکراہٹ انکساری کی دلیل اور ہنسی اگر قہقہہ بن جائے تو غرور کی نشانی مانی جاتی ہے۔ہنسی ، شخصیت کی آئینہ دار ہوا کرتی ہے ،گھوڑے خان فرماتے ہیں کہ ہنسی شرافت اور خاندانی ہونے کا پتا دیتی ہے، لہٰذاجس بات پر انہیں لوٹ پوٹ ہوجانا چاہیے وہ محض گھٹ گھٹ کر ہنسا کرتے ہیں تاکہ انہیں کوئی لوفر نہ سمجھ بیٹھے۔ گھوڑے خان نے جب سنا کہ آپ دشمن سے بھی مسکرا کر بات کریں تو وہ دوست بن جائے گا تو وہ اپنے جانی دشمن گبرو پہلوان کو دیکھتے ہی مسکرا اٹھے تاکہ اس کے دل میں ان کے لیے موجود نفرت دور ہوجائے لیکن اس ظالم نے گھوڑے خان کی مسکراہٹ کا مطلب کچھ اور نکالا اور انہیں اس بری طرح سے دھو ڈالا کہ وہ ایک ہفتے تک کوما میں رہے !
ہنسی کی کئی قسمیں ہیں جیسے زہریلی ہنسی،معنی خیز ہنسی،شیطانی ہنسی، ،کھسیانی ہنسی، بچکانی ہنسی ،نوجوانی ہنسی،زنانی ہنسی، مردانی ہنسی وغیرہ وغیرہ۔کچھ خوبصورت چہرے ہنستے ہیں تواور بھی خوبصورت نظر آتے ہیں … کچھ لوگ جب ہنستے ہیں تو یہ سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ ہنس رہے ہیں کہ رورہے ہیں۔ بعض کی ہنسی ایسی ہوتی ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا ان کی ہنسی کب شروع ہوئی اور کب ختم؟جب کہ بعض کو ہنستا ہوا دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے وہ نہایت تکلیف میں ہیں۔ کوئی خود کو معتبر ثابت کرنے کے لیے دل کھول کر نہیں ہنستا تو کوئی اس خوف سے ہنسی کو روکے رہتا ہے کہ مبادا ہنسی ہنسی میں چوکڑا منہ سے باہرنہ آجائے…سو وہ زیر لب یا پھر مونچھوں ہی مونچھوں میں مسکرانے پراکتفا کرتا ہے۔مختلف چہروں کی طرح ہنسی بھی مختلف ہوا کرتی ہے ، تندرست و توانا حضرات تو خیر سے ہنس ہی لیتے ہیں لیکن ناتواں حضرات کا ہنسنا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا،بیچارے ہنستے ہنستے نڈھال ہوجاتے ہیںاور ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب ان کے حلق سے ہنسی کی بجائے صرف ہوا باہر آنے لگتی ہے … لیکن پھر بھی وہ ’’روتے ہوئے آتے ہیں سب ہنستا ہوا جو جائے گا، وہ مقدر کا سکندر جان من کہلائے گا‘‘ کے مصداق ہنسنا نہیں چھوڑتے بھلے ہی دنیا چھوڑ جائیں … بعض حضرات کی ہنسی پرہچکیوں کا گمان ہوتا ہے تو بعض ہنستے ہنستے کھانسنے اور کھنکھارنے لگ جاتے ہیں۔بعض حضرات جب ہنستے ہیں تو سیٹیاں سی بجنے لگتی ہیں، جب کہ بعض حضرات ہنستے ہیں تو حلق سے ایسی عجیب و غریب آوازیں آتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے گویا ہم کسی چڑیا گھر کی سیر کررہے ہیں۔ چڑیا کے چہچہانے سے لیکر گھوڑے کے ہنہنانے تک کی آوازیں ان کی ہنسی میں شامل ہوتی ہیں۔ بعض حضرات ایک بھیانک چیخ کے ساتھ اپنی ہنسی کا آغاز کرتے ہیں لیکن نہایت خموشی سے اس کا گلہ بھی گھونٹ دیتے ہیں۔ چمچہ گیری کے ماہر اپنے باس کی ہر اوٹ پٹانگ بات پر اپنی بتیسی دکھانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔بعض حضرات ہنستے ہنستے گہری چوٹ کر جاتے ہیں ، جسے حیدرآبادی زبان میں ’’ شال میں لپیٹ کر مارنا ‘‘ کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ ہنسنے کے لیے ایسے مرے جاتے ہیں کہ ابھی آپ اپنی بات مکمل بھی نہیں کرتے ہیںکہ وہ زور زور سے ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔چمن بیگ نے بھی کچھ اسی طرح کا مزاج پایا ہے۔فرض کیجئے کہ کوئی ان سے کہے کہ ایک لطیفہ سنیے تو وہ بنا لطیفہ سنے ہی ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔ جب ہم نے ان سے کہا کہ روتی ہوئی عورت اور ہنستے ہوئے مرد کا کوئی اعتبار نہیں کرتا تو تب کہیںانہوں نے وقت بے وقت ہنسنا ترک کردیا۔ کچھ ایسے حضرات بھی ہوتے ہیں کہ ان پر آپ لاکھ برسیں، گرجیں ،وہ اپنی بتیسی دکھاتے ہیں:
اُن کو آتی ہے ہنسی یار مرے غصّے پر
چلتی رہتی ہے یہ تلوار مرے غصّے پر
ہنس مکھ شاہ ہنستے ہیںتو محسوس ہوتا ہے جیسے الہٰ دین کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے، جب بھی ہنستے ہیں اچھے اچھوں پر سکتہ طاری کرجاتے ہیں۔ دوست احباب کا خیال ہے کہ بستر مرگ پر لیٹا ہوا مریض اگر غلطی سے ان کا ایک عددقہقہہ سن لے تو وہ فوری اللہ کو پیارا ہوجائے۔ ایک دن ہنس مکھ شاہ ہمارے غریب خانہ پر تشریف لائے، دوران گفتگو کسی معمولی سی بات پر انہوں نے اس قدر زور دار قہقہہ مارا کہ بیچارے پڑوسی جو دیوار کی بلی بن کرپڑوسن سے آنکھیں چار کرنے میںمصروف تھے،جیسے ہی ہنس مکھ شاہ کا طوفانی قہقہہ ان کی سماعت سے ٹکرایا، اس قدر گھبرا گئے کہ پکے ہوئے آم کی طرح نیچے گر پڑے اور گرتے ہی بے ہوش ہوگئے… دوسرے دن انہوں نے ہمیں اپنے گھر بلاکر سوال داغا: ’’ کل کونسی بلا آپ کے ہاں وارد ہوئی تھی کہ جس کے قہقہے کی تاب نہ لاکر میں بیہوش ہوگیا؟‘‘ ہم نے مسکرا کر کہا ’’ وہ ہمارے عزیزترین دوست تھے ! ‘‘اتنا سننا تھا کہ گھبرا کر پوچھ بیٹھے: ’’ توکیا وہ روز آئیں گے؟‘‘ ہم نے کہا ’’ جی نہیں!آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے انہیں کبھی ادھر کا رخ نہ کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے !‘‘ پڑوسی نے ہماری بات سن کر اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا: ’’ میں تاحیات آپ کا ممنون رہوں گا،آپ نے مجھے بے وقت مرنے سے بچا لیا۔‘‘
ایک تحقیق کے مطابق خوشی کا احساس انسان کو دل کے امراض ، ڈپریشن اور ذیابیطس کی تکلیف سے بچاتا ہے۔ مسکراہٹ ایک طرح سے عصری امراض سے بچاؤکا بہترین علاج ہے۔ خوبصورت مسکراہٹ ، دل ، دماغ اور روح کو اپنے قبضے میں کرنے والا طاقتور ترین قانون ہے۔ مصر میں تازہ ترین علمی جائزے سے پتا چلا ہے کہ چہرے پر خفگی اور غصہ طاری کرنے سے جھریاں موثر شکل میں پیدا ہوجاتی ہیں، آنکھوں کے اطراف حلقے پڑجاتے ہیں۔ چینی کہاوت ہے: جو شخص عمدہ طریقے سے مسکرانا نہیں جانتا، اسے دکان نہیں کھولنی چاہئے۔کہنے کا مطلب یہی ہے کہ خشک مزاج آدمی کے آس پاس کوئی نہیں پھٹکتا۔کبھی ہنستے ہنستے بھی آنسو نکل آتے ہیں لیکن آنسوؤں کے ڈر سے ہنسنا چھوڑ دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔مولانا ابو الکلام آزاد فرماتے ہیں:’’اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے ، تو یقین کیجئے کہ زندگی کا سب سے بڑا کام سیکھ لیا ہے۔اب اس کے بعد اس بات کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ آپ نے اور کیا کیا سیکھا،خود بھی خوش رہیے اور دوسروں سے بھی کہتے رہیئے اپنے چہروں کو غمگین نہ بنائیں۔‘‘
ایک وقت تھا ہمیں مختلف مسائل مایوس کرجاتے تھے، نہایت درد بھری غزلیں لکھا کرتے تھے ،پھر ہمیںاحساس ہوا کہ مایوسی کفر ہے۔استاد محترم معروف مزاح نگار مسیح انجم صاحب نے ہم سے کہا ہنسنے والے کے ساتھ تو سبھی ہنستے ہیں لیکن رونے والے کے ساتھ کوئی نہیں روتا، مزاح لکھا کرو… اور پھر ہم نے ان کے کہے کے مطابق مزاح لکھنا شروع کردیا:
یہ جو چہرہ پے مسکراہٹ ہے
اک سجاوٹ ہے اک بناوٹ ہے
پرتاب سوم ونشی
بہرحال ہنسنا صحت کے لیے فائدہ مند ضرورہے لیکن خیال رہے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰