مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکہ دنیا کو امن اور سیکورٹی کا درس دیتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد کو ل خودمختار ممالک پر حملے اور حاکمیت کی پامالی کا جواز بناکر پیش کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں امریکہ کے دوہرے معیار کے بارے میں حقائق سامنے آنے کے بعد عالمی برادری میں امریکی ساکھ بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔
مبصرین دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچار کرنے والے امریکہ کو اس ناسور کی جڑ اور بنیادی عنصر قرار دیتے ہیں۔ معروف عراقی تجزیہ کار اور سیاسی مبصر نجاح محمد علی نے مہر نیوز کے لئے ایک خصوصی تجزیاتی مضمون میں امریکہ کی دہشت گردی کے فروغ میں کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ واشنگٹن ایک بار پھر اپنے پرانے کھیل کی طرف لوٹ آیا ہے۔ دوسروں پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے جب کہ حقیقت میں وہ خود اس کا سرپرست اور سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نتن یاہو کی حالیہ ملاقات کے دوران دیے گئے بیانات اس پالیسی کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے تحت امریکہ نے ہمیشہ مغربی ایشیا کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ پالیسی دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی اور انہیں امریکی سیاسی منصوبوں کے لیے استعمال کرنے پر مبنی ہے۔
امریکی اعترافات: القاعدہ سے داعش تک
امریکہ پر دہشت گردوں کی حمایت کوئی الزام نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جسے خود امریکی حکام اور سیاست دان بھی قبول کر چکے ہیں۔ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے برملا کہا تھا کہ اوباما داعش کا بانی ہے اور ہلیری کلنٹن اس کی شراکت دار ہے۔ یہ کوئی زبانی لغزش نہیں تھی بلکہ ایک حقیقت تھی جس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔
شام کے بحران کے آغاز میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے دہشت گرد گروہوں کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کی، جنہیں “معتدل اپوزیشن” کا نام دیا گیا۔
سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ایک خفیہ آڈیو کلپ میں انکشاف ہوا کہ امریکہ نے جان بوجھ کر داعش کو شام میں پھیلنے دیا تاکہ دمشق پر دباؤ ڈالا جا سکے اور سیاسی مفادات حاصل کیے جاسکیں۔ 2019 میں سابق امریکی رہن کانگریس گیبرڈ نے کہا تھا کہ امریکہ نے شام میں القاعدہ کو براہ راست ہتھیار اور فنڈنگ دی ہے۔
چند دن پہلے سابق امریکی سینیٹر ریچرڈ بلیک نے بھی ایک دھماکہ خیز انکشاف کیا کہ امریکہ نے القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں کو براہ راست مدد فراہم کی ہے۔
ان بیانات اور خبروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہ، واشنگٹن کی پراکسی جنگوں کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ نہ صرف ان گروہوں کی مالی مدد کرتا ہے بلکہ ان کے مالی ذرائع پر بھی پردہ ڈالتا ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ امریکہ کی ایما پر وہ تمام کام کر رہے ہیں جو واشنگٹن خود نہیں کرسکتا۔
ناقابل تردید تاریخی شواہد
اقوام متحدہ کی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نے شام میں القاعدہ کی شاخ النصرہ فرنٹ کو ترکی اور قطر کے راستے مالی اور عسکری مدد فراہم کی۔ یہ مدد نہ صرف نقد رقوم بلکہ جدید ہتھیاروں کی ترسیل پر بھی مشتمل تھی، حالانکہ یہ تنظیمیں کھلے عام دہشت گردی میں ملوث تھیں۔ مغربی انٹیلی جنس رپورٹس بھی اس بات کی تصدیق کر چکی ہیں کہ امریکہ سے بھیجی گئی کئی اقسام کے جدید ہتھیار آخرکار داعش اور النصرہ کے ہاتھوں میں پہنچ گئے۔
الجولانی: ایک مطلوب دہشت گرد سے امریکی حمایت یافتہ حکمران تک
جب مارکو روبیو شام میں عدم استحکام پر بات کرتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ واشنگٹن نے خود دنیا کے خطرناک ترین دہشت گردوں میں سے ایک، ابو محمد الجولانی کی سرپرستی کی ہے۔ یہ وہی الجولانی ہے جو کبھی امریکہ کی دہشت گردوں کی بلیک لسٹ میں شامل تھا، لیکن آج وہ براہ راست یا بالواسطہ امریکی مدد کے ذریعے شام کا عملی حکمران بن چکا ہے۔
امریکی نیوز چینل PBS نے الجولانی کے ساتھ انٹرویوز کیے اور اسے ایک معتدل اپوزیشن لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی حالانکہ اس کے ہاتھ ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
ایک امریکی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ امریکہ الجولانی کو شام کے مستقبل کے لیے ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
الجولانی جو احمد شرع کے نام سے جانا جاتا ہے، شام کے ساحلی علاقوں میں 22 ہزار علوی مسلمانوں کے قتل عام کا براہ راست ذمہ دار ہے لیکن بجائے اس کے کہ اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، وہ آج بھی امریکی حمایت سے مستفید ہورہا ہے۔
یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دعویدار ضرور ہے لیکن درحقیقت وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی عالمی سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
دہشت گرد اسرائیل کی بلاجواز حمایت
مارکو روبیو کے بیانات کو واشنگٹن کی صہیونی حکومت کے لیے غیر مشروط حمایت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی عوام پر مظالم ڈھا رہا ہے۔
غزہ جنگ کے آغاز سے قابض اسرائیلی فوج نے ہزاروں نہتے شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کو شہید کیا، جبکہ اسکولوں اور اسپتالوں کو تباہ کردیا۔
یہ بھی کوئی راز نہیں کہ اسرائیل نے شام میں دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کی ہے اور النصرہ فرنٹ کے زخمی دہشت گردوں کا علاج اپنے اسپتالوں میں کیا ہے۔
مزید برآں امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بارہا اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرکے اسرائیل کے جنگی جرائم کی مذمت کو روکا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ واشنگٹن صہیونی حکومت کی دہشت گردی کا براہ راست شریک اور سہولت کار ہے۔
دوہرا معیار، اچھے اور برے دہشت گرد
اگر واشنگٹن ان تمام گروہوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو پھر وہی اصول ان گروہوں پر کیوں لاگو نہیں ہوتے جنہیں امریکہ شام، عراق اور افغانستان میں خود سپورٹ کرتا رہا ہے؟
یہ کھلا تضاد اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی دہشت گردی کی تعریف ایک خالص سیاسی ہتھیار ہے، جو صرف امریکی مفادات کے تابع ہے۔ اگر کوئی گروہ واشنگٹن کے مفادات کے مطابق کام کرے، تو وہ معتدل اپوزیشن کہلاتا ہے۔ لیکن اگر وہی گروہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف مزاحمت کرے، تو وہ فوراً دہشت گرد قرار پاتا ہے۔ یہی وہ منافقت ہے جس نے امریکی خارجہ پالیسی کو بے نقاب کر دیا ہے جوکہ اصولوں پر نہیں بلکہ طاقت اور مفادات پر مبنی ہے۔
ایران اور مقاومتی محاذ پر الزامات، حقیقت کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش
امریکہ کی جانب سے ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام ایک گھسا پٹا دعوی ہے، جو بارہا ناکام ثابت ہو چکا ہے۔ ایران فلسطینی اور لبنانی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت کرتا ہے جو ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور اپنے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لئے جدو جہد کرتی ہیں۔ کیا اپنے علاقوں کا دفاع کرنا جرم ہے؟
امریکہ کے اپنے معیار ہیں۔ جو ناجائز قبضے کے خلاف لڑے، وہ دہشت گرد کہلاتا ہے۔ اور جو قبضہ کرنے والوں کی مدد کرے، وہ جمہوریت کا محافظ قرار پاتا ہے۔
لیکن امریکہ اب دنیا کی آنکھوں میں مزید دھونکل نہیں جھونک سکتا اور امریکی بہانے اب دنیا کے لیے مزید قابل قبول نہیں۔
امریکہ: عالمی دہشت گردی کا حقیقی معمار
اگر مارکو روبیو کو واقعی عدم استحکام کے اصل منبع کی تلاش ہے، تو اسے واشنگٹن سے آغاز کرنا چاہیے۔ القاعدہ اور داعش کی سرپرستی، ابو محمد الجولانی کی حفاظت اور صہیونی حکومت کی دہشت گردی کا دفاع۔ یہ تمام شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ نہ صرف اس دہشت گرد نیٹ ورک کا حصہ ہے، بلکہ درحقیقت اس کا سب سے بڑا سبب اور بانی بھی ہے۔
تاریخ اُن ممالک کو معاف نہیں کرے گی جو پہلے دہشت گرد گروہ پیدا کرتے ہیں اور پھر ان کے خلاف جنگ کا دعوی کرتے ہیں۔