مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، حماس اور صہیونی حکومت نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرکے قیدیوں کا تبادلہ انجام دیا تاہم صہیونی وزیر اعظم کے رویے کی وجہ سے معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہ ہوسکا ہے۔ نتن یاہو نے بارہا جنگ بندی کے معاہدے میں رکاوٹیں ڈالیں۔ اس رویے پر اسرائیلی سیاست دان بھی اس پر تنقید کر رہے ہیں۔
اسی تناظر میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک نے نتن یاہو پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو اسرائیل کے مفادات پر ترجیح دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتن یاہو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے کیونکہ یہ اس کے ذاتی مفادات کے خلاف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نتن یاہو جانتا ہے کہ جیسے ہی جنگ ختم ہوگی، اسے وزیر اعظم کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ یہ معاہدہ اس کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔
ایہود باراک نے کہا کہ فی الحال اسرائیلی عوام کی اکثریت نتن یاہو کے خلاف ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کو 7 اکتوبر کے حملے میں انٹیلیجنس کی ناکامی کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اگر غزہ میں جنگ ختم ہوتی ہے تو یہ نہ صرف نتن یاہو بلکہ لیکوڈ پارٹی کے کئی دیگر رہنماؤں کے سیاسی مستقبل کا بھی خاتمہ کر سکتی ہے۔