[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ مقبوضہ فلسطین میں نتن یاہو حکومت کو درپیش عدالتی اصلاحات کے متنازعہ منصوبے پر بحران اس قدر شدید ہوگیا ہے کہ صہیونی فورسز نے اپنے فرائض کی انجام دہی سے انکار کرنا شروع کیا ہے۔ تازہ ترین واقعات کے مطابق پولیس کے اہلکاروں نے بھی احتجاج میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق 54 افسران نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے انکار کیا ہے۔
غاصب صہیونی ادارے کے سربراہ لاو بکمن نے چینل 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونی عوام نتن یاہو حکومت کی کارکردگی سے خوفزدہ ہیں اور بیرون ممالک شہریت کی درخواست دے رہے ہیں۔
غاصب اسرائیل رہنے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے صہیونی بیرون ملک منتقل ہونے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں۔ صہیونی آبادکار سوال کررہے ہیں کہ کونسا ملک رہنے کے لئے زیادہ ہے؟ اپنے سرمایے کو کہاں منتقل کرنا بہتر ہے؟
اگرچہ ہجرت صہیونیوں کے لئے کوئی تازہ اور عجیب واقعہ نہیں ہے لیکن اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے کیونکہ صہیونیوں کی ہجرت کی تازہ لہر کے تحت مقبوضہ علاقوں سے ہمیشہ کے لئے ہجرت کرنے میں شدت آرہی ہے۔
صہیونی حکومت کی اندرونی کہانی بتارہی ہے کہ اسرائیلیوں کے درمیان باہمی اختلافات شدت اختیار کرچکے ہیں جس سے مقابلہ کرنا حکومت کے لئے دشوار ہورہا ہے۔ فسلطینیوں سے مقابلہ کرنا ایک ظاہری اور سیاسی جنگ سے بالاتر ہوکر نظریاتی جنگ میں بدل گیا ہے۔ ان حالات میں اسرائیل داخلی طور پر ویرانی کا شکار ہے یہی مقبوضہ علاقوں سے صہیونی کی ہجرت کا ایک اہم عامل ہے۔
اس حقیقت کو صہیونی حکومت چاہتے ہوئے بھی چھپانے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے اسرائیل سقوط کے دہانے پہنچ گیا ہے۔
یہ مسئلہ صہیونیت کے وجود کے لئے بڑا خطرہ بن چکا ہے جس کی بنیاد بیرون ممالک سے صہیونیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لاکر بسانے پر تھی۔
صہیونی حکام اس حقیقت کو خوب بھانپ چکے ہیں کہ صہیونیزم اپنے اختتام سے نزدیک ہورہا ہے اور ایک یہودی ملک کی تشکیل کا منصوبہ اور خواب بکھرنے والا ہے۔
ایک اور حقیقت جس کو صہیونی حکومت چھپانے کی قابلیت نہیں رکھتی ہے یہ ہے کہ صہیونی معاشرہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا شکار ہوچکا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل داخلی طور پر تباہی سے دوچار ہورہا ہے۔ اندرونی انتشار کے علاوہ بیرونی محاذ پر مقاومتی تنظیموں کی طرف سے لاحق خطرات بھی پریشانی ایجاد کررہے ہیں۔ اسی لئے صہیونی حکومت کو مستقل حکومت قرار نہیں دی جاسکتا۔ مبصرین کا تجزیہ اب حقیقت کا روپ دھار رہا ہے کہ صہیونیوں کو اب اپنا بوریا بسترہ باندھ کر فلسطینی علاقوں سے جانے کی تیاری کرنا چاہئے۔
لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے حال ہی میں اپنی تقریر کے دوران صہیونیوں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ اسرائیلی داخلی انتشار اور کمزوری سے دوچار ہے۔ صہیونی فرار ہونے کے لئے آمادہ ہورہے ہیں۔ جبکہ ہم اسرائیل کو تباہ کرتے ہوئے فلسطین کی آزادی اور مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کے لئے پورے ایمان اور جذبے کے ساتھ تیار ہورہے ہیں۔ صہیونی فوجی افسران مقاومتی قائدین کے سامنے ٹھہرنے کی سکت اور جرائت نہیں رکھتے ہیں۔
صہیونیوں کے تحت ہونے والے سروے کے مطابق 33 فیصد صہیونی مقبوضہ علاقوں سے یورپ اور امریکہ کی جانب ہجرت کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس کا واضح ترین نمونہ یہ ہے کہ نتن یاہو کے حالیہ اقدامات کے بعد 500 صہیونی ڈاکٹروں نے احتجاج کرتے ہوئے فرار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد صہیونی وزارت صحت کے سربراہ موشی بار نے پورپی ڈاکٹروں کے نمائندوں کے ساتھ ہنگامی اجلاس رکھا۔
بڑی تعداد میں ڈاکٹروں کی ہجرت کے بعد صہیونی حکومت طبی امداد رسانی کے حوالے سے بڑے بحران سے دوچار ہوسکتی ہے۔ وزارت صحت کے اعلی حکام کا کہنا ہے کہ اگر یہ تعداد 300 ہوتو بھی بحران ایجاد کرنے کے لئے کافی ہے۔
ان حالات میں متحدہ عرب امارات نے ان ڈاکٹروں کو جذب کرنے کے لئے بری پیشکش کی ہے۔ امارات کی حکومت نے اسرائیل کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تنخواہ پر ان ڈاکٹروں کو ملازمت دینے کی پیشکش کی ہے علاوہ براین ان ڈاکٹروں کے بچوں کے لئے تعلیمی مواقع اور لمبی مدت کے لئے گولڈن ویزا کا اجراء بھی پیشکش کا حصہ ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال کے ابتدائی چھے مہینوں کے دوران بیرون ممالک سے مقبوضہ فلسطین کی طرف یہودیوں کی آمد میں قابل قدر کمی واقع ہوئی ہے اس کی وجہ صہیونی حکومت کی کاروائیاں اور مقبوضہ علاقوں کی مخدوش صورتحال ہے مخصوصا غرب اردن کے واقعات اور صہیونی حکومت کے داخلی بحران نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
یہودی ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی چھے مہینوں کے دوران 29 ہزار 293 مہاجر فلسطین آئے ہیں جوکہ گذشتہ سالوں کی نسبت 20 فیصد کم ہے۔ ان میں سے 22 ہزار 851 روس سے تعلق رکھتے ہیں اور یوکرائن جنگ کی وجہ سے اسرائیل آنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ سے ہجرت کرکے مقبوضہ فلسطین آنے کی شرح میں بہت کمی ہوئی ہے۔
اس کے برعکس معکوس ہجرت یعنی فلسطین سے آبائی ممالک کی طرف ہجرت کی شرح میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ صہیونی ڈاکٹروں کے علاوہ انجنئیروں کی بھی بڑی تعداد نے اسرائیل سے واپس جانے کا فیصلہ کرلیا ہے اس طرح صہیونی حکومت 15 ہزار انجنئیروں کی کمی درپیش ہوگی۔
عبرانی میڈیا کے مطابق 2022 میں 66 فیصد اسرائیلی جوانوں کا کہنا تھا کہ اگر ملازمت مل جائے تو بھی اسرائیل چھوڑ کر نہیں جائیں گے لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور جدید سروے کے مطابق 56 فیصد اسرائیلی جوان ہجرت کرنے کی فکر میں ہیں۔ جن صہیونی جوانوں نے بیرون ملک سفر کیا ہے، واپس مقبوضہ علاقوں میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی دوسرے کی سرزمین پر قبضہ ہمیشہ کے لئے برقرار نہیں رکھا جاسکتا چنانچہ امریکہ ویتنام، عراق اور افغانستان پر اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکا اور فرانس بھی الجزائر اور دوسرے ممالک سے بوریا بستر لپیٹ کر بھاگنے پر مجبور ہوا۔