[]
نئی دہلی: راجیہ سبھا نے چہارشنبہ کے دن سنٹرل یونیورسٹیز (ترمیمی) بل 2023 اپوزیشن کے واک آؤٹ کے درمیان ندائی ووٹ سے منظور کر لیا۔
لوک سبھا اس بل کو پہلے ہی منظور کر چکی ہے، جس سے اس پر پارلیمنٹ کی مہر لگ گئی ہے۔ یہ مختلف ریاستوں میں تدریس اور تحقیق کے لیے مرکزی یونیورسٹیاں قائم کرنے والے سنٹرل یونیورسٹیز ایکٹ 2009 میں ترمیم کرتا ہے۔
اس بل میں تلنگانہ میں ایک سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی کے قیام کا التزام کیا گیا ہے۔ اس قبائلی یونیورسٹی کا نام ‘سمکاّ سرکاّ سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی’ رکھا جائے گا۔ اس کا علاقائی دائرہ اختیار تلنگانہ تک پھیلے گا۔
یہ بنیادی طور پر ملک کی قبائلی آبادی کے لیے اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی سہولیات کی راہ ہموار کرے گا۔ آندھرا پردیش ری آرگنائزیشن ایکٹ، 2014 میں یہ التزام کیاگیا تھا کہ مرکزی حکومت ریاست تلنگانہ میں ایک قبائلی یونیورسٹی قائم کرے گی۔
وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ میں ٹرائبل یونیورسٹی کا قیام قبائلی برادری کے تئیں حکومت کی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے قومی ادارے کا درجہ ملے گا اور یہ ہر کسی کو قبائلی موضوعات پر خصوصی مطالعہ اور تحقیق کا موقع فراہم کرے گا۔
انہوں نے ارکان کے اس الزام کی بھی تردید کی کہ حکومت تاریخ کو دوبارہ لکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اطمینان کی بات ہے کہ تمام ریاستیں تعلیم کے معاملے میں قومی تعلیمی پالیسی کی 90 فیصد التزامات کو اپنا رہی ہیں۔ان کے جواب کے بعد ایوان نے بل کو صوتی ووٹ سے منظور کردیا۔
قبل ازیں اپوزیشن ارکان نے لوک سبھا میں آڈینس گیلری سے ایوان میں دو لوگوں کے کودنے کا معاملہ اٹھایا اور ایوان کی کارروائی ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن ارکان نے اپنے مطالبے پر شور شرابہ کیا اور بعد ازاں ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔قبل ازیں اس بل کو پیش کرتے ہوئے مسٹرپردھان نے کہا کہ آندھرا پردیش تنظیم نو بل میں کئے گئے وعدوں کو مودی حکومت پورا کر رہی ہے۔ یہ یونیورسٹی قبائلی برادری کے لیے بنائی جا رہی ہے۔
اس پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کی ڈولا سین نے کہا کہ مودی حکومت میں اعلیٰ تعلیم پر خرچ کم ہوا ہے۔ تاہم چیئرمین نے محترمہ سین سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں حقائق پر مبنی دستاویزات پیش کریں کیونکہ مسٹر پردھان نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت کے دور میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 4.60 فیصد خرچ ہوا ہے جب کہ اس حکومت کے قیام سے پہلے 2013-14 یہ 3.84 فیصد تھا۔
اس طرح اس میں اضافہ ہوا ہے۔بیجو جنتا دل کے مجیب اللہ خان اس بل پر بول رہے تھے جب اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے نے لوک سبھا میں آڈیٹوریم سے دو لوگوں کے کودنے کا معاملہ اٹھایا اور مسٹر خان اپنی بات مکمل نہ کرسکے۔ اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے وویک ٹھاکر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس بل کے ذریعے سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی بنائی جا رہی ہے۔ قبائلی برادری کے پاس روایتی علم کا خزانہ ہے۔
اس لیے اس یونیورسٹی کو غیر ملکی یونیورسٹیوں کے ساتھ جوڑ دیا جانا چاہیے جس سے پوری دنیا کو قبائلیوں کے روایتی علم کو جاننے کا موقع ملے گا۔آئی یو ایم ایل کے عبدالوہاب نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں کو پولیٹسائزکیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیاں نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہیں، انہیں سیاست کا مرکز نہ بنایا جائے۔وائی ایس آر کانگریس کے وی وجئے سائی ریڈی نے بل کی حمایت کی اور کہا کہ یونیورسٹی کا مکمل کیمپس جلد کھول دیا جانا چاہئے۔ٹی ڈی پی کے کنکمیڈلا رویندر کمار نے بھی بل کی حمایت کی۔
اے آئی اے ڈی ایم کے، کے ایم تھمبی دورائی نے کہا کہ اس یونیورسٹی سے تحقیقی کام کو فروغ ملے گا۔ بی جے پی کے سدانند شیٹ تناوڑے نے کہا کہ اس یونیورسٹی سے مقامی لوگوں کی خواہشات پوری ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں تحقیق کو فروغ ملے گا۔قبائلی امور کے وزیر ارجن منڈا نے بحث میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وہ قبائلی یونیورسٹی کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
آزادی کے بعد حکومت نے درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو صدر کے عہدے پر مقرر کر کے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔ اس سے قبائلی برادری کی اعلیٰ سطح پر نمائندگی ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اکیسویں صدی کو ہندوستان کی صدی بنانے کے لیے آخری سرے پر کھڑی برادری کی ترقی کے ذریعے اس کا آغاز کر رہی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ نوجوان، خواتین، کسان اور غریب اس کے ستون ہیں۔بی جے ڈی کے پرشانت نندا نے بل کی حمایت کی اور یونیورسٹی کے لیے طے شدہ نصاب کی تعریف کی۔ انہوں نے کورا پٹ یونیورسٹی میں اساتذہ کی کمی کا مسئلہ اٹھایا۔