[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛
اسلامی جمہوری ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دورن مصری ہم منصب سامح الشکر سے ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران دونوں رہنماوں نے مختلف علاقائی اور بین الاقوامی مسائل بھی گفتگو کی اور مثبت نتائج برامد ہوئے۔ دونوں وزارائے خارجہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان قدیم تاریخ اور تمدنی اشتراکات کے پیش نظر اتفاق و اتحاد کے ساتھ قدم بڑھانا چاہئے۔
اگرچہ دو سال پہلے ایرانی وزیرخارجہ نے عراق کی حمایت میں منعقد ہونے والے علاقائی اجلاس کے دوران مصری صدر السیسی سے مختصر ملاقات کی تھی اسی طرح گذشتہ ایرانی ماحولیاتی ادارے کے سربراہ علی سلاجقہ نے مصری وزیرخارجہ سے شرم الشیخ میں ماحولیاتی امور کے بارے میں ہونے والے اجلاس کے دوران ملاقات کی تھی لیکن نیویارک میں دونوں ممالک کے وزارئے خارجہ کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے پہلے بغداد کی ثالثی میں دونوں ممالک کے درمیان کچھ نشستیں ہوئی تھیں۔
ان نشستوں کے بعد وزرائے خارجہ کی ملاقات اس بات کی طرف اشارہ دے رہی ہے کہ مذاکرات مثبت سمت کی طرف بڑھ رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ ملاقات تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کی بحالی اور خلیج فارس کے ممالک کی ایران کے ساتھ تعلقات میں موجود برف پگھلنا شروع ہونے کے بعد ہوئی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان ممالک نے قاہرہ کو گرین سگنل دے دیا ہے۔
نیویارک میں اس اعلی سطحی ملاقات کو علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں خاصی تشہیر ملی ہے جہاں اس نشست کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کے سفارتی کوششوں میں قابل ذکر اضافہ ممکن ہے۔
تاریخی حوالے سے ایران اور مصر کے درمیان تعلقات قدیمی ترین ایام سے جاری ہیں۔ دونوں ممالک کی وجوہات کی بناپر خطے میں نہایت ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک بڑی آبادی پر مشتمل ہیں۔ دونوں کے پاس آبنائے ہرمز اور سویز کینال جیسی اہم آبی گزرگاہیں ہیں۔ دونوں ممالک خطے میں اتحاد تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان وجوہات کی بناپر صدر رئیسی کی حکومت نے ابتدائی ایام سے ہی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی خصوصی پالیسی اپنائی ہے۔
مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوششیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے خطے دونوں کے مفادات کو تحفظ مل سکتا ہے۔
براعظم افریقہ ہمیشہ ایران کے لئے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ مصر کی اس براعظم میں اہمیت کے پیش نظر ایران کے لئے دوسرے افریقی ممالک کے تعلقات قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مصر عرب دنیا کا دل ہے لہذا جو بھی مصر کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائے مشرق وسطی میں اہم حیثیت حاصل کرے گا بنابراین تہران مصر کے ساتھ تعلقات بحال کرکے مشرق وسطی میں اتحاد کا نیا ڈھانچہ تشکیل دے سکتا ہے یا حداقل مصر کو ایران مخالف بلاک میں شامل ہونے سے روک سکتا ہے۔
ایران مصر میں سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر آنے والے دباو کو کم کرسکتا ہے۔
ایران اور مصر کے درمیان تعلقات کی بحالی کا نتیجہ دونوں کے حق میں آئے گا۔ حالیہ سالوں میں مصر خطے میں اپنی ماضی کی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرکے اپنے ہدف سے مزید نزدیک ہوسکتا ہے۔
مصر تین عرب ممالک عراق، شام اور لبنان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کا خواہشمند ہے۔ ایران کے ان تینوں ممالک کے ساتھ اچھے روابط کے پیش نظر ان ممالک میں بھی مصر کے لئے سرمایہ کاری کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔
مصر غزہ کی پٹی میں امن کے قیام کا خواہاں ہے۔ ایران فلسطینی مقاومتی تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے لہذا دونوں ممالک مل کر اس سلسلے میں تعاون کرسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر ایران اور مصر کے درمیان تعلقات کی بحالی سے دونوں ممالک کے لئے متعدد فوائد حاصل ہوں گے اور خطے میں دونوں کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا دوسری طرف دونوں ممالک کی خطے میں اہمیت بڑھنے سے صہیونی حکومت کے مفادات اور امن کو خطرات لاحق ہوں گے کیونکہ خطے میں دونوں کی طاقت بڑھنے سے صہیونی حکومت کی تنہائی مزید بڑھ جائے گی۔
غزہ کے ساتھ مصر کی ملحقہ سرحد بھی صہیونیوں کے خوف کی ایک وجہ ہے۔ صہیونیوں کو خطرہ ہے کہ ایران رفح گزرگاہ کے اطراف میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے خطے میں مزید اثررسوخ بڑھا سکتا ہے۔ اگر فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو مصر سے مزید امداد ملی تو ان کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوگا اور صہیونی حکومت کو سنگین قیمت ادا کرنا پڑے گا۔
مصر کی ایران کی جانب رغبت سے صہیونی حکومت خطے میں بڑے اتحادی سے محروم ہوجائے گی۔ تہران اور قاہرہ کے درمیان قربت کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو صہیونی حکام اپنی سیکورٹی کے لئے بڑے خطرے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گویا مصر صہیونی حکومت کے اتحادیوں کے خیمے سے نکل کر دشمنوں کی طرف چلا گیا ہے جوکہ اسرائیل کے لئے نہایت ہی تشویش ناک ہے۔
اگر مصر اور ایران کے روابط کسی بھی لحاظ سے سرے سے شروع ہوجائیں تو صہیونی حکومت کی امنیت مزید دشوار ہوجائے گی ایسے وقت میں جب پہلے سے ہی فلسطین کے حالات صہیونیوں کے لئے درد بنے ہوئے ہیں۔
انہی وجوہات کی بناپر نیویارک میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد صہیونی حکام کی نیندیں اڑ گئی ہیں لہذا صہیونی حکومت آئندہ دنوں میں ہر ممکن کوشش کرے گی کہ مصری حکام سے رابطہ کرکے دونوں ملکوں کے تعلقات میں آنے والی گرمجوشیوں کو ختم کرے۔
آخر میں اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کرنا لازم ہے کہ ایران اور مصر کے تعلقات بحال ہونے سے ایران اور عرب ممالک کے درمیان بھی روابط پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے جس سے خطے میں کشیدگی میں کمی ہوگی اور شام، لبنان اور یمن میں جاری بحرانوں کا بھی خاتمہ ہوسکے گا۔