خواتین کے لیے ریزرویشن: ہنوز دلّی دور است!

[]

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ایک لمبے انتظار کے بعد خواتین ریزرویشن بل ملک کی پارلیمنٹ میں منظور ہوگیا۔ نئے پارلیمنٹ ہاوس کے پہلے اجلاس میں وزیر اعظم نریندرمودی نے منگل کے روز (19 ستمبر 2023) لو ک سبھا میںناری شکتی وندن ادھینیم بِل 2023 پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس بل کی منظوری کے بعد لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی حاصل ہوجائے گی۔ لوک سبھا میں مباحث کے بعد یہ بل 20 ستمبر کو منظور کرلیا گیا۔ 454ارکان نے بل کی تائید کی اور صرف دو ارکان نے اس کی مخالفت کی ۔ راجیہ سبھا میں جمعرات کو اس پر مباحث ہوئے اور ایوان بالا میں بھی یہ بل منظور کرلیا گیا۔ اب ہندوستان کی کم از کم نصف ریاستوں کی اسمبلیوں میں اس کی منظوری کے بعد یہ قانونی شکل اختیار کرلے گا۔ لیکن اس کے لئے خواتین کو ابھی انتظار کی گھڑیاں طے کرنا ہے۔ 2026 میں لوک سبھا حلقوں کی ازسر نو حد بندی کے بعد ہی یہ قانون نافذ ہوگا۔ 2024میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں اس پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ 2029کے لوک سبھا الیکشن میں ہی خواتین کو 33فیصد لوک سبھا نشستیں حاصل رہیں گی۔ اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص کانگریس پارٹی کا مطالبہ ہے کہ اس قانون کو فی الفور نافذ کیا جائے ۔ سابق صدر کانگریس سونیا گاندھی نے بل کی پیشکشی کے دوسرے دن مباحث میں حصہ لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مجوزہ قانون پر جلداز جلد عمل آوری ہو۔ اس قانون کی منظوری کے بعدایوان لوک سبھا میں خاتون ارکان کی تعداد 82سے بڑھ کر 181ہوجائے گی۔ملک کے قانون ساز اداروں میں خواتین کو مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ برسوں سے کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے 1996 میں دیوے گوڈا حکومت نے خواتین کے لئے ریزویشن کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ 1998اور پھر 1999میں اٹل بہاری واجپائی کے دور میں اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ 2008میں یوپی اے حکومت کے دور میں منموہن سنگھ حکومت نے راجیہ سبھا میں یہ بل پیش کیا۔ راجیہ سبھا میں اسے منظور کرنے کے بعد بل کولوک سبھا بھیجا گیا لیکن وہاں اس کی منظوری نہیں ہو سکی اور اسی دوران 2014میں لوک سبھا تحلیل ہو گئی۔ 2014کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کو شکست ہوگئی اور بی جے پی کا میاب ہوگئی۔ نریندرمودی کی قیادت میں تشکیل پانے والی بی جے پی حکومت نے خواتین کے ریزویشن کے مسئلہ کو ایک انتخابی مسئلہ بنائے رکھا۔ اب جب کہ وہ اپنی دو معیادیں پوری کر رہی ہے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں خواتین ریزرویشن بل کو منظوری دی گئی۔ ساڑھے نو سال گزرجانے کے بعد پارٹی نے یہ محسوس کیا کہ ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کی بھی حصہ داری ضروری ہے۔ اپنے اقتدار کے آخری ایام میں خواتین سے ہمدردی جتاتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نمایاں نمائندگی دینے کا تیقن دینا خود یہ ثابت کرتا ہے کہ مودی حکومت اب بھی اس معاملے مخلص نہیں ہے۔ تیسری مرتبہ مرکز میں حکومت بنانے کی ایک سیاسی چال ہے۔ خواتین کو با اختیار بنانے کے تعلق بی جے پی فکر مند ہوتی تو اس کے لئے ساڑھے نو سال انتظار نہیں کیا جاتا۔ اپنی پہلی میعاد کے دوران ہی خواتین کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں شراکت کو یقینی بنایا جا تا۔ اب بھی جو قانون لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے نفاذ کے لئے مزید چھ سال خواتین کو انتظار کرنا پڑے گا۔اس کے لئے مردم شماری کے مرحلے کو پورا کرنے اور اسمبلی و پارلیمنٹ کے حلقوں کی حدبندی کا ہونا ضروری قرار دیاہے۔ جب تک اس پر عمل ممکن نہیں ہے۔
سابق میں جب کبھی خواتین کو ریزرویشن دینے کے لئے قانون سازی کی گئی بی جے پی نے اس کی پُر زور مخالفت کی اور کسی طرح اسے پارلیمنٹ میں منظور ہونے نہیں دیا گیا۔ لیکن اب شاید بی جے پی کو احساس ہو گیا ہے کہ ملک کی نصف آبادی کو نظرانداز کرکے ملک کو ترقی کی طرف نہیں لے جایاجا سکتا ہے۔ اسی لئے خواتین کے ووٹوں کے حصول کے لئے ملک کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں جاتے ہی وزیراعظم نے خواتین تحفظات بل پیش کر دیا۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن اور اسی سال پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے بی جے پی حکومت نے خواتین کے تحفظات کے بل کو پارلیمنٹ میں منظور کیا ہے۔ منموہن سنگھ حکومت نے جب اس بل کو راجیہ سبھا میں منظور کرکے لوک سبھا میں منظوری کی کوشش کی تھی تو اس وقت بی جے پی نے اس کی زبردست مخالفت کر تے ہوئے اسے منظور ہونے نہیں دیا۔ اب جب کہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس صرف پانچ دن کے لئے طلب کیا گیا بی جے پی حکومت نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے خواتین تحفظات بل کی منظوری کو یقینی بنالیا۔ 28 پارٹیوں کی جانب سے انڈیا اتحاد کی تشکیل سے بھی ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا ہے۔ بی جے پی کو یہ خوف ہے کہ انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیاں خاتون رائے دہندوں کو بھی اپنی طرف راغب کرلیں گی تو بی جے پی کے لئے کا میابی کے امکانات اور کم ہوجائیں گے۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ بی جے پی حکومت نے خواتین کو گمراہ کرنے کے لئے یہ نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ وہ اگر واقعی خواتین سے تعلقِ خاطر رکھتی تو بہت پہلے ہی اس جانب پیش قدمی کر تی۔ دس سال کے قریب اقتدار پر رہتے ہوئے اسے ملک کی خواتین کی ضرورتوں کا احساس نہیں ہوا۔ اب اچانک ان کے لئے لوک سبھا اور اسمبلیوں میں ایک تہائی تحفظات دینے کی باتیں خواتین سے زبانی ہمدردی ہی ہو سکتی ہے۔ کانگریس نے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے موقع پر خواتین سے جو وعدے کئے وہ اسے پورا کرنے کی جانب پیش رفت بھی کر رہی ہے۔ اسی طرح تلنگانہ میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کے موقع پر بھی کانگریس نے ریاست کی خواتین کو مختلف سہولیات دینے کا وعدہ کیا ہے۔ گزشتہ 17 ستمبر کو حیدرآباد کے مضافات میں منعقدہ کانگریس کے ایک بڑے جلسے میں سونیا گاندھی نے تلنگانہ کے عوام سے چھ اہم وعدے کئے ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق خواتین کی فلاح وبہبود سے ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کانگریس کے ان انتخابی وعدوں نے بی جے پی کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہو اوراسی کے نتیجہ میں خواتین ریزرویشن کو اہمیت دی جا رہی ہو۔ ایک ایسے موقع پر جب کہ ملک کی پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، میزورم اور تلنگانہ میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں رائے دہندوں بالخصوص خواتین کو رجھانے کے لئے خواتین کے لئے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں ریزرویشن کے بل کو مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں منظور کروایا ہے۔ لیکن اس قانون کے نفاذ میں ٹال مٹول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی ملک کی خواتین کو اب بھی پوری طرح قانون ساز اداروں میں نمائندگی دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ 2023میں قانون بن جانے کے بعد اس کو نافذ کرنے کے لئے 2029تک انتظار کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس قانون کے تحت2024کے لوک سبھا الیکشن میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی نہیں دی جا سکتی۔ اس سے قانونی پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ جب یہ بل پارلیمنٹ میں منظور ہوچکا ہے تو اسکے نفاذ میں غیر ضروری تاخیر سے خواتین اپنے دستوری حقوق سے محروم رہیں گی۔ اپوزیشن پارٹیوں کے پُر زور مطالبہ کے باوجود بی جے پی حکومت کی جانب سے اس کی فوری عمل آوری سے انکار کئی شبہات کو جنم دے دیتا ہے۔
کانگریس پارلیمانی پارٹی کی قائد اور سابق صدر کانگریس سونیا گاندھی نے لوک سبھا میں خواتین ریزویشن بل پر جاری مباحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کو فی الفور عملی جامہ پہنائے۔ انہوں نے اس بات کا مطالبہ بھی کیا کہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری کی جائے اور خواتین ریزرویشن بل میں دیگر پسماندہ طبقات ( او بی سی ) ، درج فہرست طبقات اور درج فہرست قبائل کی خواتین کو بھی کوٹہ مقرر کرنا لازمی ہے۔ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی جن میں سماج وادی پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اوربہوجن سماج پارٹی شامل ہیںیہ مطالبہ کیا کہ دیگر پسماندہ طبقات کی خواتین کی اس میں شمولیت اس لئے ضروری ہے کہ وہ ملک کی بڑی آبادی کا حصہ ہے لیکن ان کی آبادی کے لحاظ سے ان کی نمائندگی نہیں ہو رہی ہے۔ 2010 میں جب یو پی اے حکومت کے دور میں ویمن ریزرویشن بل راجیہ سبھا میں منظور کیا گیا تھا اس وقت کانگریس نے کسی طبقہ کے لئے کوٹہ کی بات نہیں کی تھی۔ اب کانگریس نے یو ٹرن لیتے ہوئے ملک کے مختلف طبقات کو اس میں حصہ دار بنانے کی بات چھیڑ دی ہے۔ اس معاملہ میں سونیا گاندھی نے چہارشنبہ کو جو دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے اس سے بھی سیاسی ماحول کافی گرم ہو گیا ہے۔ بی جے پی حکومت او بی سی طبقہ کو ناراض کر تی ہے تو اس سے راست فائدہ کانگریس اور اس کے حلیفوں کو ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا خواتین ریزرویشن بل میں کوئی ترمیمات کی جا تی ہیں اور اپوزیشن کے مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے جو طبقات شامل نہیں ہیں انہیں بھی اس میں شامل کیا جا ئے گا۔ OBC,SC,اور STطبقہ کی خواتین کے ریزرویشن کی گونج تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سنائی دی لیکن مسلم خواتین کو ریزویشن دینے کا مطالبہ کسی سیکولر پارٹی کی جانب سے نہیں کیا گیا !!
کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد کے رکن لوک سبھا بیرسٹر اسد الدین اویسی واحد رکن تھے جنہوں نے کہا کہ اس بل میں مسلم خواتین اور دیگر پسماندہ طبقات کو شامل نہیں کیا گیا اسی لئے وہ بل کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ انہوں نے اور ان کے رفیق جناب امیتاز جلیل ، رکن لوک سبھا حلقہ اورنگ آباد نے بل کی مخالفت میں اپنی رائے دی۔ ان دو ارکان پارلیمنٹ کے سوا تمام ہی ارکان لوک سبھا نے بل کی تائید کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کے تمام شعبوں میں بالعموم مسلمانوں اور بالخصوص ان کی خواتین کو حاشیہ پر لا دیا گیا۔ تعلیم ہو معیشت، سرکاری ملازمت ہو یا سیاست کہیں پر بھی ان کی نمائندگی برائے نام ہے۔ پہلے لوک سبھا کے الیکشن سے سترویں لوک سبھا تک 690خواتین لوک سبھا کی رکن بنیں۔ ان میں صرف 25 مسلم خواتین ہیں۔ اسد اویسی صاحب نے بتایا کہ ملک بھر میں مسلم خواتین سات فیصد ہیںلیکن لوک سبھا میں ان کی نمائندگی صرف 0.7 فیصد تک محدود ہو گئی۔ آج ملک میں تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیوں کے دعوے کے باوجود 19فیصد لڑکیاں ترک تعلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ صدر مجلس نے بی جے پی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اس بل کے ذریعہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو قانون ساز اداروں میں پہنچانے کا راستہ فراہم کر رہی ہے۔ پسماندہ اور بچھڑے طبقات کے ساتھ مسلم خواتین کو ویمن ریزویشن میں حصہ نہ دینا اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بی جے پی ملک کے مخصوص طبقوں کو قومی ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع دے رہی ہے۔ اس قسم کی منفی سوچ سے نہ ملک کا بھلاہوگا اور نہ خواتین اس سے کوئی فائدہ اٹھاسکیں گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ویمن ریزویشن بل میں جو کچھ خامیاں ہیں انہیں دور کیا جائے اور سماج کے تما م طبقات کو اس میں شامل کیا جائے تب ہی یہ بل واقعی ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں کلیدی رول ادا کر سکتا ہے ورنہ یہ بل بھی بی جے پی کا انتخابی حربہ مانا جائے گا۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *