[]
پروفیسر اختر الواسع
ایک ایسی دنیا میں جو عالمی گاؤں بن چکی ہے،جب زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں، نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ کی ترقی نے فراق و فصل کے تمام تصوارت کو بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے اور اب یہ دنیا یک قطبی ہو گئی ہے اور اس نئی یک قطبی دنیا میں گروپ آف ٹوینٹی (G20) بین الاقوامی اقتصادی تعاون کا سب سے بڑا فورم ہے۔ آج دنیا کی ۸۰ فیصد معیشت انہیں ملکوں کے ہاتھوں میں ہے جو کہ اس فورم کا حصہ ہیںاور یہ ۱۹ ممالک اور ایک یورپین یونین ہے جو مختلف بر اعظموں سے تعلق رکھتے ہیں اب اپنے خطے ہی میں نہیں بلکہ بین الاقوامی اسٹیج پر طاقت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
ہندوستان میں جی ٹوینٹی کی کانفرنس ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، چوں کہ ہندوستان کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشتوں میں سے ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کا سیاسی، سماجی، تہذیبی، ثقافتی اورلسانی تنوع اس کو اور زیادہ اہمیت کا حامل بنا دیتا ہے۔ ہر سال جی ٹوینٹی کی صدارت اس کے ممبر ملکوں میں گھومتی رہتی ہے اور۲۰۲۳ میں ہمارے ملک کے حصے میں آئی ہے۔ ۹، ۱۰ ستمبر ۲۰۲۳ کا جی ٹوینٹی سربراہی اجلاس نئی دہلی میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں دنیا کے بڑے قائدین شریک ہو رہے ہیںاور ان کے علاوہ ان میں وہ ممالک بھی ہیں جو جی سیون اوربرکس (Brics) کا بھی حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی یونین، عالمی مالیاتی ادارہ (IMF) ورلڈ بینک(World Bank) ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن(WTO) اور یو این او(UNO) کے سربراہ بھی اس میں موجود ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ اس موقع پر نئی دہلی ڈکلیریشن پر بھی دستخط کیے جائیں گے اور اس کے علاوہ پائدار اور پر امن دنیا کے مستقبل کے لیے ایک نئی دہلی ایکشن پلان بھی پیش کیا جائے گا۔ یہ سارے ہندوستان کے لیے نہ صرف فخر کی بات ہے کیوں کہ دنیا نے اس اجلاس سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جی ٹوینٹی کے بارے میں اب تک اردو میں با ضابطہ بہت زیادہ مواد سامنے نہیں آیاہے۔ وہ تو بھلا ہو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز صاحب کا جن کی قیادت میں یونیورسٹی نے نہ صرف جی ٹوینٹی کا جامع پروگرام بنایا بلکہ اردو زبان میں جی ٹوینٹی کے تعارف، تاریخ اور تجزیے پرچھ ابواب پر مشتمل ایک کتاب تیار کرائی۔ خیر سے اس کتاب کی تصنیف و تالیف کا کام ایک ایسے نوجوان دانشور کو دیا گیا جو اپنی تحقیقی اور تصنیفی صلاحیتوں کے لیے علمی حلقوں میں اپنی شناخت بنا چکے ہیں اور وہ ہیں جناب اسعد فیصل فاروقی جو کہ مشہور زمانہ عالم، نقاد اور دانشور پروفیسر شافع قدوائی کے نامور شاگرد ہیں۔ اس کتاب کے پہلے باب میں جی ٹوینٹی کی تنظیمی ساخت، علاقائی تقسیم، باری باری صدارت کا نظم، جی ٹوینٹی کے کام کرنے کا طریق کار جس میں ٹریک نظام شامل ہے، اور دیگر امور کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چند دیگر اقدامات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مذکورہ تصنیف کادوسرا باب جی ٹوینٹی ممالک کا تعارف ہے۔ یہ باب اردو حلقوں میں جی ٹوینٹی ممالک کے سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور سماجی پہلوؤں کے بارے میں معلومات اور اس کی اہمیت کو متعارف کرانے کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔ اس باب کی اہمیت یہ بھی ہےکہ چوں کہ جی ٹوینٹی کا ہر رکن ملک اپنے آپ میں ایک منفرد اور یکتا سیاسی و سماجی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ممالک نہ صرف مختلف بر اعظموں سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے مختلف ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کے مسائل بھی مختلف نوعیت کے ہیں۔لاطینی امریکہ، امریکہ، آسٹریلیا، برازیل، یورپ اور ایشا کے جی ٹوینٹی کے ممبر ملکوں کے علاوہ اس باب میں آخر میں یورپین یونین کے بارے میں بھی اہم معلومات درج کی گئی ہیں۔ مذکورہ تصنیف کا تیسرا باب ’’جی ٹوینٹی اور عالمی گورننس ‘‘ہے۔ یہ باب بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور اردو حلقوں میں جی ٹوینٹی کے عالمی نظم و نسق کے قیام میں کردار کے بارے میں معلومات اور اس کی اہمیت کو متعارف کراتا ہے۔
اب تک جی ٹوینٹی کے ۱۷ چوٹی کے سربراہی اجلاس ۱۶ ممالک میں منعقد کیے جا چکے ہیں ۔ دہلی میں اس وقت جاری سربراہی اجلاس اس سلسلے کا ۱۸ واں چوٹی کا اجلاس ہے۔ جی ٹوینٹی کا اولین چوٹی سربراہی اجلاس واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں ۲۰۰۸ میں منعقد ہوا تھا۔ مذکورہ کتاب کے اس باب میں ’’جی ٹوینٹی کے گذشتہ چوٹی سربراہی اجلاس ایک جائزہ‘‘کے تحت اب تک کے عالمی اجلاسوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہےاور اس کے بیان کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ عام اردو قاری ان اہم معلومات سے نہ صرف اس تنظیم کی اہمیت کو جان سکے نیز ان مسائل اور حالات سے بھی آشنا ہو سکے جو کہ موجودہ وقت میں دنیا کے سیاسی و معاشی حالات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس کتاب کا چوتھا باب ’’ ہندوستان اور جی ٹوینٹی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس سے پہلے کے باب کے آخر میں بھی ہندوستان کی صدار ت میں ہورہی جی ٹوینٹی چوٹی سربراہی اجلاس کے بارے میں وسیع معلومات جمع کر دی گئی ہیں۔ اس باب میں ہندوستان کی صدارت میں جی ٹوینٹی کی سرگرمیوں پر بات کی گئی ہے۔ اس باب میںاس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہےکہ ہندوستا ن میں ہر سطح پر جی ٹوینٹی سے متعلق آج کل اتنی گفتگو کیوں ہو رہی ہے؟ ہندوستان کے تناظر میں اس کے جاریہ اجلاس کی کیا اہمیت ہے اور کیا معانی ہیں؟یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہندوستان نےجی ٹوینٹی کی سرگرمیوں کو صرف ملکی راجدھانی دہلی تک محدود نہیں رکھا ہے اس لیے اس کتاب میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہونے والی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پس منظر میں جی ٹوینٹی ممالک کے اجلاس کا جائزہ لیا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام مسلم ملکوں میں یہ فخر صرف ہندوستان اور اس کے مسلمانوں کے سر جاتا ہےکہ دنیا میں جدید اور سیکولر تعلیم کا پہلا ادارہ سن ۱۸۷۵ میں علی گڑھ میں قائم کیا گیا اور آج جب جی ٹوینٹی کے اجلاس پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پس منظر میں جائزہ لیتے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر ممالک سے علی گڑھ کے تعلیمی رشتوں کی کڑیاں آزادی سے قبل ملتی ہیں، ان میں سے چند ممالک سے خیر سگالی کے رشتے کالج کے زمانے سے ہی قائم ہیں بلکہ سر سید کے زمانے سے ملتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسعد فیصل فاروقی کی دقت نگاہ، داد تحقیق اور مطالعاتی کھوج کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ انہوں نے سر سید اکیڈمی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہونے والی اس کتاب کو جی ٹوینٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رشتوں مثلاً طلبہ اور اساتذہ کا لین دین، سربراہان مملکت و حکومت کی علی گڑھ میں تشریف آوری اور اسی طرح کی جزئیات کو جمع کر کے غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیاہے ۔ اس سلسلے میں جو باب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تناظر میں جی ٹوینٹی ممالک کے دہلی میں جاری سربراہی اجلاس کے سلسلے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کس طرح کی اکیڈمک اور تشہیری سرگرمیاں جاری ہیں، ان پر بھی وضاحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذمہ داروں بالخصوص سر سید اکیڈمی کے انتہائی فعال اور سر گرم ڈائرکٹر پروفیسر سید علی محمد نقوی، ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد،علمی سرگرمیوں کے لیے ہمہ وقت متحرک پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نہ صرف علی گڑھ والوں بلکہ اردو والوں کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ جن کی تجویز، تحریک اور حوصلہ افزائی سے اسعد فیصل فاروقی نے انتہائی موقع اور محل کی مناسبت سے ایسی معلومات افروز کتاب تصنیف کی۔ ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے اس کتاب کو لکھ کر ایک علیگرین، ہندوستانی اور اردو والے کی حیثیت سےایسا غیر معمولی کام انجام دیا ہے جو بحیثیت ہندوستانی ہم پر فرض تھا اور ایک اردو والے کی حیثیت سے ہم پر قرض بھی تھا ۔
(مصنف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمرٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں)