شبِ براءت مقبولیت ِدعاء و استغفار کی رات

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

اللہ تعالی ہی ہمیشہ سے اپنی ساری مخلوق کی تمام ضرورتیں پوری کرتا رہتا ہے ۔جو لوگ اس کی بارگاہ اقدس میں اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں تو انہیں نوازتا جاتا ہے ۔ہر وقت ہر گھڑی اسکی خیرات کا لنگر لگا ہوتا ہے اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آتی کبھی اپنی عطاوؤں سے نہ تھکتا ہے نہ ہی مانگنے والوں سے ناراض ہوتا ہے بلکہ مانگنے والے بندوں سے وہ بہت خوش ہوتا ہے ۔اگر کوئی شخص اپنے سؤال کے مطابق نہ ملنے کی وجہ سے نا امید ہوتا ہے تو کہتا ہے اے بندے !تو میری رحمت سے مایوس نہ ہو، سوال کر میں ہمہ وقت دینے کے لئے تیارہوں ۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کیا خو ب کہا :

ہم تو مائل بکرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی رہروِ منزل ہی نہیں

تجھ پر لٹانے میں میر ی رضا ہے، کبھی رب کریم اپنی نعمتوں کوکسی مصلحت کے تحت روکتا ہے ،تاکہ مخصوص مقام مخصوص دنوں میں اسے عطاکرے اسی لئے دعائیں مخصوص اوقات ومخصوص جگہوں میں جلد قبول ہوتی ہیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جسمیں دعا یقینی طور پر قبول ہوتی ہے ،روزہ ،افطار کے وقت دعاجلد قبول ہوتی ہے اسی طرح تہجد کے وقت دعاجلد قبول ہوتی ہے ،خانہ کعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر کے وقت دعا جلد قبول ہوتی ہے ،عرفا ت میں جلد دعا قبول ہو تی ہے،شب قدر میں جلد دعا قبول ہوتی ہے اسی طر ح شب برات میں جلد دعا قبول ہوتی ہے ۔

یقینا شب برات برکت عظمت ،رحمت اور مغفرت والی رات ہے جس میں باری تعالی کی جانب سے ساری رات رحمت کے خزانے بٹتے رہتے ہیں ۔ہر سو رحمت کی گھٹا چھائی ہوئی ہوتی ہے ۔مغفرت کے دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اس رات کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ بارگاہ الہی میں اس رات مانگنے والے محروم نہیں ہوتے ہر سوالی کی جھولی بھردی جاتی ہے ،علم کے طلبگار کو علم دیا جاتا ہے ،دولت کے طلبگار کو دولت ملتی ہے ،عزت کے طلبگار کو عزت عطا کی جاتی ہے ۔

دنیا کے طلبگار کو دنیا مل جاتی ہے آخرت کے طلبگار کو آخرت مل جاتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ رجوع ہوں ۔ شب برات میں دعا کی مقبولیت کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عن علي رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَھَا وَ صُوْمُوْا نھارھا فان اللہ یَنْزِلُ فِیْھَا لِغروب الشمس إلی سَماء الدُنیا فَیَقُوْلُ اَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاغْفِر لہ اَلَا من مسْتَرْزِقٍ فَارْزُقَہُ اَلَا من مُبْتلی فاعَافِیہ اَلا کَذَا اَلَا کَذَا حتی یَطْلُعَ الْفَجْر۔ (ابن ماجہ، شعب الایمان، کنز العمال)

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو اس میں قیام کرو(جاگ کر عبادت کرو) اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت سے اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ: ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو رزق دوں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اس کو نجات دوں، کیا کوئی ایسا ہے کیا کوئی ایسا ہے۔ یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔

اس شب کی دوسری خصوصیت یہ ہیکہ با حیات لوگوں کے گناہوں کی بخشش ہوتی ہے ۔یہ حقیقت ہیکہ اس دنیا میں کامیابی وآخر ت میں نجات کا ذریعہ استغفار ہے چونکہ گنا ہ اور نافرمانی انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتے ہیں جوسراسر گھاٹے کا سودا ہے ۔اس کے برعکس اطاعت او رترک گناہ قرب الہی کا ذریعہ ہے توبہ واستغفار اطاعت کی طرف مائل کرتے ہیںںں اور ترک گناہ کی طرف ترغیب دیتے ہیں ارشاد ربانی ہے:

وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَیْْہِ یُمَتِّعْکُم مَّتَاعاً حَسَناً إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی وَیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہُ وَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنِّیَ أَخَافُ عَلَیْْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ (سورہ ہود)اور اگر تم گناہ اپنے رب سے معاف کروالو،پھر اس کی بارگاہ میں تو بہ کرو تو وہ تم کو (اس دنیا میں)مقررہ وقت تک بہترین متاع عطا کریگا او رہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب عطا کرے گا اور اگر تم پیٹھ پھیر لو تو مجھے تم پر(قیامت کے )بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے ۔

اس آیت سے واضح ہے کہ استغفار وتوبہ سے دنیا میں رزق ،سکون و راحت اور عزت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اس سے روگردانی کرنے والے عذاب الہی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ جو شخص بھی اللہ تعالی کی بارگاہ میں صدق دل سے گناہوں کی معافی کی بھیک مانگتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی اس کے صغیرہ وکبیرہ گناہوں کو معاف کرتا ہے یہ توفیق صرف اللہ کے محبوب بندوں کو نصیب ہوتی ہے ۔

یہ حق ہے کہ انبیاء کرام و رسولان عظام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں ان سے گناہ صغیرہ وکبیرہ سرزد نہیں ہوتے وہ معصو م ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ ہمیشہ رب العالمین کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کرتے رہتے ہیں ۔ حضرت نو ح علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں استغفار اس طرح کیا جیساکہ سورہ ہود میں ہے: قَالَ رَبِّ إِنِّیْ أَعُوذُ بِکَ أَنْ أَسْأَلَکَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِہِ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُن مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ (ہود: ۴۷) (حضرت) نوح علیہ السلام نے کہا اے پروردگار !میں تیری پناہ مانگتاہوں اس بات سے کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کی حقیقت مجھے معلوم نہیں اور اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور مجھ پر رحم نہ کرے گا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا ۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رب کریم کی بارگاہ مین جن الفاظ سے التجا وتو بہ کی قرآن کریم اسے یوں بیان کرتا ہے: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِن ذُرِّیَّتِنَا أُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم(البقرۃ :۱۲۸)ائے ہمارے پروردگار !ہم دونوں کو اپنے فرماں بردار بندے بنا اور ہماری اولاد میں سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری فرمانبردار ہو اور ہم کو عبادت کے طریقے بتااور ہماری توبہ قبول فرما بے شک تو ہی تو بہ قبول فرمانے والا بڑا مہربان ہے۔

اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں ان الفاظ سے دعا مانگی چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: قَالَ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَلَہُ إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْم (قصص:۱۶) (حضرت )موسیٰ نے عرض کی ائے پرور دگار !میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا بس تو مجھے معاف فرمادے تو اللہ نے ان کو معاف کردیا کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کیلئے جن کلمات کے ذریعہ مغفرت طلب کی سورہ اعراف میں اس کا کچھ اس طرح تذکرہ آیا ہے: قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلأَخِیْ وَأَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن (الاعراف :۱۵۱) انہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں) عرض کیا: اے میرے رب!مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میںداخل فرما ،اور تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والاہے ۔

حضرت داود علیہ السلام کا استغفار کلام الٰہی میں اس طرح ذکر کیا گیا: وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہُ وَخَرَّ رَاکِعاً وَأَنَابَ ،فَغَفَرْنَا لَہُ ذَلِکَ وَإِنَّ لَہُ عِندَنَا لَزُلْفَی وَحُسْنَ مَآبٍ (ص:۲۴،۲۵) داود علیہ السلام نے خیال کیا کہ (اس واقعہ سے )ہم نے ان کی آزمائش کی ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے بخشش ما نگی اور سجدے میں گر پڑے اور (ہماری طرف)رجوع ہوئے توہم نے ان کو معاف کردیا اور بے شک ان کے لئے ہمارے ہاں قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔ہم تمام انبیاء علیہم السلام کی ساری حیات وسیرت کا مطالعہ کریں تو یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ وہ بے گناہ ہونے کے باوجود ہمیشہ توبہ واستغفار کیا کرتے تھے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم سراپا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اس کے باوجود ہم توبہ واستغفار نہیں کرتے یہ ہماری دنیا وآخرت میں سب سے بڑی ناکامی ہے ۔شب براء ت توبہ واستغفار کے لئے بہترین شب ہے اس میں زندوں کے ساتھ مرحومین کی بھی مغفرت ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم اپنے مرحومین کے لئے دعا مغفرت کا اہتمامم کریں اور ان کیلئے ایصال ثواب کریں چنانچہ جامع ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت البقیع میں پایا اس حال میں کہ آسمان کی طرف حضورؐ اپنا سر اٹھائے ہوئے تھے، مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا: اِنَّ اللَّہَ یَنزل لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا فَیَغْفِرُ لاکثر مِنْ عَددِ شَعْرِ غَنَم کَلْب۔ یقینا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر اپنی شان کے مطابق جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زاید لوگوں کی بخشش فرماتا ہے۔ اس برکت و رحمت والی شب میں حضورؐ کے جنت البقیع تشریف لے جانے کی وجہ سے امت مسلمہ کے لئے شبِ برات میں زیارت قبور مسنون و مستحق قرار پائی۔

مرحومین کیلئے ایصال ثواب قرآن کریم واحادیث شریفہ سے ثابت ہے او رجو دعا دوسروں کے لئے کی جاتی ہے وہ جلد قبول ہوتی ہے یقینا مرحومین اپنی قبروں میں مجبور و محتاج رہتے ہیں ہم ان کے لئے ایصال ثواب یا دعائے مغفرت کرتے ہیں تو وہ ان کے لئے راحت ونجات وسکون کا ذریعہ بن جاتا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔ عن ابي ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ عزوجل لیرفع الدرجۃ للعبد الصالح في الجنۃ فیقول: یارب! إنّٰی لي ہذہ؟ فیقول: باستغفار ولدک لک (مسند احمد) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ عزوجل جنت میں نیک بندہ کا درجہ بلند فرمائے گا وہ عرض کرے گاکہ اے میرے رب !یہ مقام مجھے کہاں سے ملا؟اللہ تعالی فرمائیگا یہ مقام تیری اولاد نے جوتیرے لئے مغفرت کی دعا کی تھی اس کی وجہ سے ہے۔

اس شب کی چوتھی او راہم خصوصیت ہے کہ شب براء ت میں موت، حیات، تقسیم رزق کے فیصلے ہوتے ہیں، اگرچہ ہماری تخلیق سے ہزاروں سال قبل جو کچھ ہوا، اور ہونے والا ہے وہ سب لوحِ محفوظ(تقدیر) میں لکھا جا چکا ہے، البتہ سال بھر میں کتنے لوگ پیدا ہونے والے اور کتنے لوگ وفات پانے والے ہیں اور کس کو کتنا رزق ملنے والا ہے ایسے اہم فیصلوں کے دفتر فرشتوں کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں۔ فرمانِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے: عن عائشۃ رضی اللہ عنہا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم:

قال: ھل تدرین ما فی ھذہ اللیلۃ یعنی لیلۃ النصف من شعبان؟ قالت: ما فیھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ فقال: فیھا ان یکتب کل مولود من بنی آدم فی ھذہ السنۃ و فیھا ان یکتب کل ھالک من بنی آدم فی ھذہ السنۃ و فیھا ترفع اعمالھم و فیھا تنزل ارزاقھم الی آخرہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، زجاجۃ المصابیح، شعب الایمان) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ جانتی ہیں کہ اس شب یعنی پندرھویں شعبان میں کیا ہوتا ہے؟ آپؓ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کیا ہوتا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اس سال جتنے لوگ پیدا ہونے والے ہیں ان کے نام لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس میں جتنے لوگ فوت ہونے والے ہیں ان سب کے نام لکھ دئیے جاتے ہیں، اور اس میں لوگوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور ان کی روزی کے دئیے جانے کا فیصلہ لکھا جاتا ہے۔

یہ حق ہے کہ جنہیں توفق خداوندی ہوتی ہے وہ اس رات عبادت، دعاء ، توبہ، استغفار میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے مرحوم رشتہ داروں کے لئے ایصال ثواب و دعائِ مغفرت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ ہم سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *