اتراکھنڈ میں یو سی سی نافذ ہونے کے بعد سے مذہبی آزادی، ذاتی خود مختاری اور رازداری سے متعلق فکر کا اظہار کئی سیاسی پارٹیاں اور سماجی تنظیمیں کر رہی ہیں۔


یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی)، علامتی تصویر آئی اے این ایس
اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کا نفاذ رواں سال جنوری ماہ میں ہو چکا ہے۔ لیکن اس قانون پر عمل آوری کے دوران کئی طرح کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب کچھ اصولوں میں تبدیلی کے لیے حکومتی سطح پر ہوم ورک شروع ہو چکا ہے۔ یعنی کچھ اصولوں میں تبدیلی کے لیے غور و خوض کا عمل جاری ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف سکریٹری کی صدارت میں جلد ہونے والی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں کوئی بڑا فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ ریاستی محکمہ داخلہ کی طرف سے اس سلسلے میں تیاریاں پوری کر لی گئی ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں یو سی سی نافذ ہونے کے بعد سے ہی مذہبی آزادی، ذاتی خود مختاری اور رازداری سے متعلق فکر کا اظہار کئی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی تنظیمیں بھی کرتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یو سی سی ذاتی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ خاص طور سے ’لیو-اِن-رلیشن شپ‘ کے لازمی رجسٹریشن جیسے التزامات کی مخالفت ہو رہی ہے۔ کچھ گروپ جانشینی سے متعلق اصولوں کو لے کر تذبذب کی حالت میں ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ عملی پہلو بھی ہیں، جو قانون نافذ ہونے کے بعد سامنے آ رہے ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ یو سی سی کے اصولوں میں تبدیلی سے متعلقہ مسودہ پر ضروری تبادلہ خیال کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے تشکیل اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی جلد ہی اصولوں میں تبدیلی یا ترمیم پر فیصلہ لے سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی شادی رجسٹریشن اور طلاق کی سہولت، سَب رجسٹرار دفاتر سے اپلوڈ کرنے کی سہولت دینے کا بھی فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ ایڈیشنل داخلہ سکریٹری نویدیتا ککریتی اس معاملے میں کہتی ہیں کہ یو سی سی کے اصول و ضوابط پر عمل درآمد میں آ رہی عملی پریشانیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جلد ہی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی میٹنگ ہوگی۔ اس میں متعلقہ مسائل پر ضروری فیصلے لیے جائیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈ میں یو سی سی نافذ ہونے کے بعد سے اب تک کئی طرح کی دقتیں درپیش آ چکی ہیں۔ مثلاً یو سی سی میں ٹرانسجنڈر اور یکساں جنس کی شادیوں کے رجسٹریشن کی سہولت نہیں دی گئی ہے۔ چونکہ ٹرانسجنڈر اور یکساں جنس کی شادیوں کے معاملے سامنے آ رہے ہیں تو یو سی سی میں اس تعلق سے سہولتیں جوڑی جا سکتی ہیں۔ غیر ملکی شہریوں سے شادی کے بعد رجسٹریشن میں آدھار کارڈ کی لازمیت رخنہ انداز بن رہی ہے۔ اس کے لیے بھی کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ دقتیں ’لیو-اِن-رلیشن شپ‘ میں بھی آ رہی ہیں۔ قانون کے تحت ’لیو-ان-رلیشن شپ‘ کے معمالوں میں پولیس کو لازمی طور سے جانکاری دینے کی ہدایت ہے، جبکہ عام شادی میں ایسا نہیں ہے۔ اس بارے میں بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ مزید کئی مسائل سامنے آ چکے ہیں، مثلاً اگر کوئی شادی کے وقت نابالغ تھا اور اب بالغ ہو چکا ہے تو ایسی حالت میں کیا فیصلہ لیا جائے؟ ایک ضلع میں رجسٹرڈ معاملوں کا دیگر اضلاع میں منتقلی کی کیا صورت ہوگی؟ عام ذات والے شخص کے ساتھ درج فہرست قبائل کی شادی اور اتراکھنڈ کے درج فہرست قبائل کے ساتھ دیگر ریاستوں کے درج فہرست قبائل کی شادی پر کیا فیصلہ لیا جائے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔