غزہ میں بھوک اور افلاس۔ 2 ارب مسلمان کہاں ہے؟

نئی دہلی ۔ غزہ میں طویل صہیونی جارحیت کے بعد عارضی جنگ بندی کے باوجود بھوکے پیاسے محصورین غزہ بے بسی کی مجسم تصویر بنے ہوئے ہیں۔ مگر دوسری طرف دنیا کے خزانوں کے مالک دو ارب مسلمان نہتے غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے اپنا فرض پورا کرنے سے قاصر ہیں۔’دو ارب نفوس کی حامل مسلم امہ غزہ آپ کی طرف سے تھمائی گئی امانت کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے مگر بھوک اور ننگ پھر لوٹ آئے ہیں جو ہمارے بچوں کے معدوں کو کھا رہے ہیں‘۔

 

یہ الفاظ ایک مقامی صحافی راجی الھمص کے ہیں جو انہوں نے اپنے’ایکس‘ اکاونٹ کے ذریعے عرب اور مسلمانان عالم سے غزہ کے مہینے کے دوران فوری مدد کرنے کی اپیل کے ذریعے کیے ہیں‘۔الھمص نے نوجوانوں، سماجی کارکنوں، علماء، سیاسی رہنماؤں، شیوخ اور تمام بااثر شخصیات سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں غزہ میں بڑھتے افلاس اور بھوک کے خلاف آواز بلند کریں اور غزہ پر مسلط کردہ محاصرہ توڑنے کے لیے، صہیونی ریاست کی جانب سےگذرگاہوں کی بندش اور انسانی امداد کے لیے ضروری انسانی امداد کے داخلے کی روک تھام کے لیے آواز بلند کریں۔

 

انہوں نے کہاکہ “خیر و برکت کے اس مہینے میں دو ہفتوں تک کراسنگ کی مکمل بندش اور خوراک کے سامان اور 21,000 ٹرکوں کو جو غزہ پہنچنے والے تھے، کے داخلے سے روکنے کے بعد حقیقت بیان کرنا مشکل ہے۔ لوگ ایندھن کی کمی کی وجہ سے روزانہ خریدی جانے والی خوراک پر انحصار کرتے ہیں اور ذخیرہ کرنے اور اسے اگلے وقت کے لیے بچانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہاکہ “اس مہینے میں اپنی آواز بلند کریں اور اپنے بھائیوں کی حمایت کریں اور افطار کی میز پر اپنے بھائیوں کے نہ ختم ہونے والے درد کو یاد رکھیں۔ ان کے غریبوں، بے سہاراوں اور بھوکوں کو یاد رکھیں”۔

 

روٹی کا بحران شدت اختیار کر نے لگا

غزہ کی پٹی میں روٹی کا بحران پھر واپس آ گیا ہے، کراسنگ کی مسلسل بندش اور بیکریوں کو چلانے کے لیے ضروری ایندھن کی کمی کے باعث کھانے کی اشیا کی تیاری میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔غزہ کی پٹی میں کراسنگ کی مسلسل بندش اور قابض ریاست کی جانب سے پٹی میں ایندھن کی اجازت دینے سے انکار کی وجہ سے بیکری مالکان غزہ کی پٹی میں ایندھن کی قلت کے متبادل کے طور پر لکڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔غزہ میں ایک بیکری کے مالک کا کہنا ہے کہ “ہم بیکری میں لکڑی کے ساتھ کام کرتے ہیں تاکہ شہریوں کی بنیادی زندگی کی ضروریات میں مدد کی جا سکے جو بجلی اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں”۔

 

ان کا کہنا ہے کہ “کھانا یا روٹی تیار کرنے کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے”۔سند نیوز ایجنسی کے مطابق بیکری مالک نے کہا کہ “بیکری لوگوں کو روٹی تیار کرنے میں مدد کرتی ہے، پیسٹری اور مٹھائیوں کے علاوہ ضروری اشیا تیار کرتی ہے مگر اب بیکریوں کو لکڑیا بھی دستیاب نہیں”۔انہوں نے مزید کہاکہ “ہماری ضروریات ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتیں۔ لکڑی بہت کم ہے کیونکہ لوگ اب اسے اپنے گھروں اور خیموں میں استعمال کر رہے ہیں”۔

 

ایک روٹی کے لیے لمبا سفر

ایک شہری نے کہا کہ “ہم روٹی کے حصول کے لیے ہر روز لمبا فاصلہ طے کرنے پر مجبور ہیں۔ اکثر بازار میں روٹی کی قلت کے ساتھ ساتھ کام کرنے والی بیکریوں کے سامنے شدید ہجوم، کراسنگ کی بندش اور قابض اسرائیل کی طرف سے گیس اور ایندھن کے داخلے میں رکاوٹ کے باعث لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔انہوں نےکہا کہ “مجھے اکثر ایک روٹی کی قیمت سے چار یا پانچ گنا قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو کہ بیکریوں کے سامنے بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے‘‘۔

قحط کے منڈلاتے خطرات

قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں حقیقی قحط کے آثار نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ سے پٹی میں خوراک اور ایندھن کا داخلہ روکا جا رہا ہے۔

 

قابض اسرائیلی حکام نے 42 روزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام کے موقع پر 2 مارچ کی صبح غزہ کی پٹی کی کراسنگ، خاص طور پر کارم ابو سالم کمرشل کراسنگ کو بند کر دیا، جس سے انسانی امداد اور تجارتی سامان کی آمد و رفت روک دی گئی۔مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ محصور غزہ کی پٹی کے 2.4 ملین افراد میں سے 80 فیصد سے زیادہ افراد اپنی روزی روٹی اور روزمرہ زندگی کے لیے انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام نے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ 2 مارچ کے بعد سے غزہ میں کوئی خوراک داخل نہیں ہوئی ہے۔تمام سرحدی گزرگاہیں بند ہیں۔

 

ورلڈ فوڈ پروگرام نے اطلاع دی ہے کہ غزہ کی پٹی میں بعض بنیادی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

تاریخ کی خطرناک بھوک

اقوام متحدہ کےرابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے امداد کی آمد روکنے اور پانی اور بجلی کی بندش کے فیصلے کے بعد غزہ کی پٹی کو خوراک، پانی اور صحت کی خدمات کی قلت کا سامنا ہے۔

 

 

انہوں نے کہا کہ “غزہ کے لوگوں کو کافی مقدار میں خوراک، پانی، صحت کی خدمات اور دیگر ضروری سامان تلاش کرنا مشکل ہو رہا ہے”

خوراک کے حق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری نے کہا ہےکہ قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے خوراک کے حصول کی مسلسل روک تھام کی جارہی ہے۔

 

 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *