افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر مکمل پابندی ہے۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم ان کی شریعت (اسلامی قانون) کی تشریح کے مطابق مناسب نہیں ہے۔


افغانستان کے اسکولوں میں نیا سیشن شروع ہو رہا ہے، لیکن لڑکیوں کے لیے اسکول کے دروازے اب بھی بند ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے یہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ یونیسیف مسلسل طالبان سے اپیل کر رہا ہے، لیکن طالبان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر طالبان نے یونیسیف کی بات نہیں مانی تو 2030 تک تقریباً 40 لاکھ لڑکیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی اور وہ تعلیم کے حقوق سے محروم رہ جائیں گی۔ یعنی طالبان میں خواتین پر عائد تعلیم کی پابندی نہیں ہٹائی گئی تو 5 سال بعد ملک میں 40 لاکھ لڑکیاں ناخواندہ ہو سکتی ہیں۔
افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر مکمل پابندی ہے۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم ان کی شریعت (اسلامی قانون) کی تشریح کے مطابق مناسب نہیں ہے۔ حالانکہ طالبان کے اس فیصلے پر پوری دنیا میں تنقید ہو رہی ہے۔ یونیسیف کے مطابق اس پابندی کی وجہ سے 4 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد 22 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسِل نے کہا کہ 3 سال سے زائد عرصے سے لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اب تمام لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
اگر یہ پابندی 2030 تک جاری رہی تو 40 لاکھ لڑکیوں کو پرائمری تعلیم کے بعد اسکول جانے کا موقع نہیں ملے گا۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس کا اثر صرف تعلیم تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ صحت کے شعبے میں بھی اس کے تباہ کن نتائج مرتب ہوں گے۔ خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی کی وجہ سے زچگی کی شرح اموات اور بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ رواں سال پاکستان میں منعقد ایک عالمی کانفرنس میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی حالت کو ’جنڈر اپارتھائیڈ‘ (صنفی امتیاز) کہا۔ انہوں نے طالبان حکومت سے لڑکیوں کی تعلیم بحال کرنے کی اپیل کی۔ حالانکہ طالبان نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
قابل ذکر ہے کہ یونیسیف نے کہا کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ ان کے کیریئر اور خود اعتمادی پر بھی اثر پڑے گا۔ علاوہ ازیں یہ فیصلہ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کو بھی متاثر کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ طالبان اپنی سختی کو چھوڑ کر کیا لڑکیوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا راستہ اپنائے گا یا پھر لاکھوں لڑکیوں کے خواب یوں ہی ادھورے رہ جائیں گے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔