مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ – آذر مہدوان: ترکی میں استنبول کے میئر “اکرام امام اوغلو” کی گرفتاری سے نہ صرف اس ملک میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی حالت پر سوالات اٹھ رہے ہیں، بلکہ اس کے اہم سیاسی نتائج بھی نکل رہے ہیں۔ یہ عمل عوام کے حکومت پر عدم اطمینان کو ظاہر کرتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ترکی میں مقبول سیاستدانوں کی گرفتاری ملکی سیاست میں ایک روایت بن چکی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما صلاح الدین دیمیرتاش کے بعد اب اکرم امام اوغلو کی گرفتاری ترک معاشرے میں انصاف کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔
اکرم امام اوغلو 2019 سے استنبول کے میئر اور ریپبلکن پیپلز پارٹی کے اہم رکن ہیں جو اردگان کے اہم ترین حریف کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ان کی گرفتاری نے ترکی میں اس حد تک ہلچل مچا دی ہے کہ حکومت نے واٹس ایپ میسنجر کو فلٹر کرنے کی کوشش کی تا کہ اکرم اوغلو کی حمایت میں ریلیوں کو روکا جا سکے۔
مہر نیوز کے نمائندے نے ایک ترک صحافی “مصطفی کمال اردمول” سے اس سلسلے میں گفتگو کی ہے:
مہر نیوز: اردگان کے سیاسی حریف اور استبول کے میئر کے طور پر اکرم اوغلو کی گرفتاری کے سیاسی نتائج کیا ہوں گے؟
اس اقدام کے سیاسی نتائج متاثر کن ہوں گے، لیکن جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ ووٹرز کا ردعمل ہے۔ لوگوں کی عمومی رائے یہ ہے کہ اکرم امام اوغلو کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا ہے اور یہ احساس بیلٹ بکس میں بھی نظر آ سکتا ہے۔
ماضی میں بھی ایسی ہی صورتحال سامنے آئی ہے۔ امام اوغلو نے میونسپل انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس میں انہوں نے پہلی بار حصہ لیا، لیکن جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اس شکست کو قبول نہیں کیا اور غیر قانونی طور پر دوسری بار انتخابات کرائے گئے۔ دوسرے مرحلے میں اکرام اوغلو نے 800,000 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ترک عوام ناانصافی دیکھتے ہیں تو وہ بیلٹ باکس میں اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری جانب اکرم اوغلو نے اعلان کیا کہ وہ صدارت کے لیے انتخاب لڑیں گے۔ اردگان امام اوغلو کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اس صورت حال کی وجہ سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی دنیا کی نظروں کے سامنے ایک غیر قانونی فعل کی مرتکب ہوئی۔ درحقیقت یہاں کوئی قانون موجود نہیں ہے کیونکہ اس پارٹی کے سربراہ اردگان خود قانون ہیں۔
اردگان کی سربراہی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نہ صرف اپنے حریفوں کو بلکہ اپنے تمام مخالفین کو گرفتار کرتی ہے اور انہیں سالوں تک جیل میں رکھتی ہے
ترکی کی حکمران جماعت اپنی قانونی حیثیت کھو چکی ہے۔ اگر ان تمام مسائل کے باوجود اکرم اوغلو کو نامزد کیا جاتا ہے تو ان کے جیتنے کا بھرپور موقع ہے۔ اس صورت میں ملک پارلیمانی نظام کی طرف واپسی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا جس کا سب سے بڑا ممکنہ سیاسی نتیجہ اردگان کی شکست ہو سکتا ہے۔
کیا استنبول میونسپلٹی کے لئے حکومت کی جانب سے میئر کا تقرر ممکن ہے؟
برسوں سے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی حکومت ان تمام اداروں کے خلاف انتقامی کاروائی کر رہی ہے جنہیں وہ اپوزیشن کے طور پر دیکھتی ہے، خاص طور پر میونسپلٹی کے میئر کا تقرر، اس لیے وہ استنبول میونسپلٹی کے لیے میئر بھی مقرر کر سکتی ہے۔ البتہ یہ تقرری حکمراں جماعت کے لیے قدرے مشکل ہے اور اس پر سیاسی اور عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔
اگر اردگان استنبول میونسپلٹی کے لئے مئیر کا تقرر کرتا ہے، تو اس کا مقصد استنبول کینال پروجیکٹ کو نافذ کرنا ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو استنبول کو تباہ کر دے گا جب کہ ترک عدالتوں نے اس منصوبے کی تکمیل سے روک دیا ہے۔ اب حکومت اس پروجیکٹ کو دوبارہ میونسپلٹی کے ذریعے نافذ کرسکتی ہے جس کا انتظام میئر کے پاس ہوگا۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے قریبی ذرائع ابلاغ کا خیال ہے کہ ہمیں اکرم اوغلو سے متعلق حالیہ پیش رفت کا سیاسی عمل کے طور پر تجزیہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک سیکورٹی ایشو ہے، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا اکرم اوغلو کی گرفتاری ایک سیاسی اقدام نہیں ہے؟
حکومت کے حامی میڈیا کا کام حکومتی اقدامات کا جواز تلاش کرنا ہے۔ جب کہ اکرام اوغلو کے خلاف الزامات کا تعلق بلدیاتی امور سے نہیں ہے اور دیگر الزامات بھی لگائے گئے ہیں، یہ واضح ہے کہ یہ فیصلہ مکمل طور پر سیاسی ہے۔ کیونکہ تمام انتخابات میں اکرم اغلو نے حکومت کے خلاف کامیابی حاصل کی ہے۔ چونکہ حکومت انتخابات کے ذریعے انہیں روکنے میں ناکام رہی، اس لئے ان کی سیاسی موجودگی کو روکنے کے لیے عدلیہ کے ذریعے ان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اکرم اوغلو کی گرفتاری ہر لحاظ سے ایک سیاسی فیصلہ ہے۔