ریونت ریڈی حکومت کی ’منصف‘ پر ایمرجنسی، سرکاری اشتہارات بند، احتجاجاً اخبار نےاداریہ خالی چھوڑدیا

حیدرآباد: اگر ریونت حکومت چاہتی ہے کہ ہم اپنے قارئین کو یہ باور کروائیں کہ کانگریس کے دور میں تلنگانہ بھر میں شِیر و شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں تو یہ ہم سے نہیں ہوگابلکہ ہم یہ سوال اٹھاتے رہیں گے کہ زمینیں بنجر کیوں ہوگئیں‘  کسی غریب کوفاقہ کشی کی نوبت کیوں آئی اور کسی مجبور بیٹی کی عصمت کیوں لٹی‘۔

 ہم اپنے قرطاس وقلم کو حکومت کی مدح سرائی میں سیاہ کرنے کی بجائے اپنے قلم کو عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں وقف کردیں گے۔مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ ہم برسراقتدار پارٹی کے مقابل کسی دوسری پارٹی کوفوقیت دیتے ہیں یا ہم کسی پارٹی کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔

 ہاں یہ ضرور ہے کہ سوالات موجودہ حکمراں پارٹی سے کئے جاتے ہیں نہ کہ اپوزیشن پارٹیوں سے کیوں کہ وہ اب ریاست کی پالیسی طے نہیں کرتی۔ہماری ہمیشہ سے یہی پالیسی رہی ہے کہ ہم صرف اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہیں۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ روزنامہ منصف میں صرف حکومت پر تنقیدیں ہی کی جاتی رہی ہیں‘ ہم نے صحافتی توازن کو ہمیشہ برقرار رکھتے ہوئے حکومت کے مثبت اقدامات کی بھی فراخ دلی کے ساتھ ستائش کی اورعوام کی فلاح و بہبود کے لئے اسکیمات کے اعلانات کی مناسب انداز میں تشہیر بھی کی ہے اور ترقیاتی پروجیکٹس کو نمایاں طور پر پیش بھی کیا ہے مگر حکومت چاہتی ہے کہ عوام کو درپیش مسائل اور ان سے کئے گئے وعدوں کی عدم تکمیل کو فراموش کردیا جائے اور صرف اپوزیشن پارٹی پر چیف منسٹر اور برسراقتدار پارٹی کے قائدین کی تنقیدوں کو کارہائے نمایاں کے طور پر پیش کیا جائے مگر حکومت کی وعدہ خلافی کو اجاگر کرنے سے گریز کیا جائے اور ناکامیوں پر تنقید کرنے سے اجتناب کیا جائے۔

 ہم ارباب حکومت کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ چاہے کتنا بڑا مالی بحران پیدا کیوں نہ ہو جائے ہم اپنے قلم کو حکمراں طبقہ کے پاس گروی نہیں رکھیں گے چونکہ ہم نے اپنے آپ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ ’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘۔

ہم اپنے قارئین کو یہ بتادیں کہ شائد ارباب حکومت کو یہ برداشت نہیں ہورہا تھا کہ تلنگانہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پیش آنے والے فرقہ وارانہ واقعات کو منظرعام پر لایا جائے‘ ہم نے گزشتہ ایک برس میں پیش آئے دو درجن سے زائد فرقہ وارانہ نوعیت کے ہر واقعہ کو اس کے حقیقی تناظر میں پیش کیا۔

 یقیناً ہم نے اپنی خبروں میں لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے میں پولیس مشنری کی ناکامی کو واشگاف کیا۔ چلکور میں اشرار کی جانب سے رات کے اندھیر ے میں ایک غیر آباد مسجد کے انہدام اور اس کی دوبارہ تعمیر سے حکومت کے گریز کو اپنے صفحات پر نمایاں کیا۔ ہم یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ جب اقلیتی اقامتی اسکولس کی طالبات کے یونیفام سے دو پٹوں کو برخاست کرتے ہوئے نیا یونیفام متعارف کروایا گیا تو ہم نے اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے ارباب ٹمریز کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا۔

ہاں ہمیں یہ بھی اعتراف ہے کہ ہم اوقاف کے تحفظ کے لئے ہمیشہ حکومت کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ائمہ و موذنین کو مشاہرہ اور مطلقہ خواتین کے وظائف کی وقف بورڈ سے عدم ادائیگی پر وقفہ وقفہ سے حکومت کو متنبہ کرتے رہے ہیں۔ہم نے یقیناً اپنی تحریروں میں مودی حکومت کی طرح کابینہ میں کسی مسلم چہرہ کو شامل نہ کئے جانے پر بھی تنقید کی ہے۔

یہی نہیں بلکہ ہم نے کانگریس پارٹی کو اقتدار دلانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے حقیقی مسلم قائدین کے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافی کو بھی پیش کیا ہے۔ حائیڈرا کی تشکیل کے بعد متاثرین کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے غیر واجبی طور پر انہدامی کارروائیاں شروع کی گئیں تو ہم نے ان کو بھی آشکار کیا مگر شائد حکومت کو یہ سب کچھ پسند نہیں۔جب ارباب حکومت نے یہ دیکھا کہ حقائق کو پیش کرنے کا سلسلہ بند ہونے کا نام ہی لیا جارہا ہے تو ہمارے وسائل آمدنی پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی۔

 ریونت حکومت کے اس اقدام نے اندرا گاندھی کے ایمرجنسی کے دور کی یاد دلادی ہے۔ اندرا گاندھی نے بھی اپنی آمریت کو دوام بخشنے کے لئے سب سے بڑا خطرہ صحافت کو ہی محسوس کیا تھا اور اس نے صحافت کوقابو کرنے اور اپنی مدح سرائی کے لئے مجبورکرنے کے لئے اخبارات کو اشتہارات کی مسدودی‘ خبروں کی ترسیل کے لئے مواصلاتی خدمات میں رخنے اورصحافیوں کی گرفتاری کے حربے اختیار کئے تھے۔

 کانگریس قائد راہول گاندھی نے جون 2023 ء میں واشنگٹن ڈی سی میں صحافیوں سے تبادلہ ئ خیال کرتے ہوئے بڑے ہی دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ بھارت میں صحافت کی آزادی خطرے میں ہے جسے دنیا محسوس بھی کرسکتی ہے۔انہوں نے کہا تھا ”آزادی صحافت کسی بھی فعال جمہوریت کے لئے انتہائی اہم ہے اور ہر کسی کو تنقید قبول کرنے کے لئے تیار ہونا چاہئے۔

“ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اس ادارہ جاتی ڈھانچے پر قدغن لگائے جارہے ہیں جس سے قومی مکالمہ ممکن تھا مگر انہیں اب یہ دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ ان کی ہی پارٹی کی ایک حکومت‘ صحافت کا گلہ گھونٹنا چاہتی ہے۔

 تلنگانہ میں ریونت حکومت ایک طرف غیر جانبدار اخبار کو سرکاری اشتہارات مسدود کررہی ہے تو دوسری طرف صحافیوں کو گرفتار کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہی ہے مگر یہ واضح ہوجائے کہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے صحافت کی آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ملک کے تقریباً سبھی اردو اخبارات میں مودی حکومت کے خلاف تنقیدیں شائع ہوتی ہیں مگر ابھی تک کسی بھی اردو اخبارات کو مرکزی حکومت کے اشتہارات مسدود نہیں کئے گئے۔

اس کے برخلاف ریونت حکومت‘ شائد ایمرجنسی کے دوران کئے گئے جابرانہ حربے ایک بار پھر آزمانا چاہتی ہے۔ قارئین منصف آگاہ ہی ہوں گے کہ گزشتہ چار ماہ سے ریونت حکومت نے روزنامہ منصف کو سرکاری اشتہارات کی اجرائی مسدود کررکھی ہے اس کے باوجودنہ ہی ہمارے قدم ڈگمگائے ہیں اور نہ ہی ہمارے ارادے کمزور پڑے ہیں۔

 ہم نے اپنے صحافتی اصولوں سے انحراف نہیں کیا اور مسلسل عوام کے مسائل کو نمایاں کرتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی اخبار کو چلانے کے لئے درجنوں ملازمین کی اجرت‘ کاغذ، روشنائی‘ بجلی‘ محاصل اور پھر ترسیل وغیرہ کے لئے ماہانہ اساس پر ایک خطیر رقم درکار ہوتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قارئین جو اخبار کی قیمت ادا کرتے ہیں ان سے تمام اخراجات کی پابجائی ممکن نہیں‘ ماباقی اخراجات کی پابجائی کے لئے اشتہارات  ہی ایک بڑا ذریعہ ہوتے ہیں اور ان میں بڑا حصہ سرکاری اشتہارات کا ہوتا ہے۔

 شائد ارباب حکومت یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ادارہ منصف کو سرکاری اشتہارات مسدود کرتے ہوئے حکومت کی خوشنودی کے لئے مجبور کردیں گے۔ ہم نے آمدنی کے ایک بڑے ذریعہ کے مسدود ہوجانے کے باوجود اپنے عزم و حوصلوں کو کمزور پڑنے نہیں دیا بلکہ ہم نے ان مشکل حالات میں نہ ہی حکومت کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور نہ ہی اپنے صفحات کو محدود کیا ہے بلکہ ہم نے اپنے صفحات میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے قارئین کی تشنگی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

 اور آئندہ بھی ہم اپنا فریضہ نبھاتے رہیں گے۔آئندہ اشاعت میں اخبار کو اشتہارات کی مسدودی کے پس پردہ محرکات اور عناصر کے بارے میں انکشاف کیاجائے گا۔ادارہ منصف اپنے ساتھ ناروا سلوک پراپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے 13 مارچ کو کورا اداریہ پیش کیا گیا۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *