مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں دینی حمیت اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہیے

مہر خبررساں ایجنسی – گروہ دین و تفکر: خدا وند تعالی نے دین اسلام کو انسانوں کی ہدیت کے لیے بھیجا ہے اور انہیں سعادت کی بلندیوں تک کے پہنچنے کے لئے درکار تمام ضروری راستے بیان کر دئے ہیں۔

رمضان المبارک میں “قرآنی آیات کے ساتھ زندگی گزارنے کے قومی منصوبے” کے تحت ہم ہر دن ایک آیت کی تلاوت اور اس کے پیغام پر غور کرنے کی کوشش کریں گے۔ 

قرآن کریم کو سمجھنے کی کوششیں پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے سے لے کر آج تک جاری ہیں اور قرآن کی جاودانگی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں اس کی تفسیر ہوتی رہے۔
  قرآن کی آیات کو دین کی تفہیم کا سب سے اہم اور اولین منبع سمجھا جاتا ہے اور تفسیر کی اہم ترین خصوصیت آیات کے ہدایتی پہلو کی تبیین ہے۔

دوسرے لفظوں میں قرآن کے نزول کا بنیادی مقصد”هُدیً لِلنَّاسِ” ہے۔

اس طرز تفسیر میں صرف آیات کے معانی کی جہتوں کو بیان کرنے اور الفاظ کی تشریح پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ اس میں قاری کی آیات کے الفاظ سے معنی اور معنی سے بلند اہداف کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

مہر نیوز نے معروف مفسر قرآن استاد محمد علی انصاری کی تفسیر کے جامع نکات کو  تفصیلی اور بصری انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

“آیات کے ساتھ زندگی کے قومی منصوبے” کا مقصد عوام الناس کو منتخب آیات کے مفاہیم سے روشناس کرانا ہے۔

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ

اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیرًا۔ (سورہ نساء آیت 75)

   تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں اور مظلوم مردوں، عورتوں اور بچوں کی [آزادی] کے لیے نہیں لڑتے [جن کا ظالموں نے راستہ روک رکھا ہے]؟ وہ مظلوم جو ہر وقت پکارتے ہیں: پروردگار! ہمیں اس شہر سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی جانب سے ایک ولی اور مددگار مقرر فرما۔

اہم تفسیری نکات:

 یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں ہے جو اہل مکہ کے شکنجوں اور آزار میں مبتلا تھے۔ اور یہ ان لوگوں کی مذمت کرتی ہے جنہوں نے مستضعفین کی رہائی کے لئے جدوجہد سے کام نہیں لیا۔

 امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: ظالموں کی حکومت میں رہنے والے مستضعفان سے مراد ہم اہل بیت ع ہیں۔ اور امام صادق علیہ السلام نے مستضعفان سے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا: وہ لوگ ہیں جو نہ مومن ہیں اور نہ کافر۔

پیغامات:

 1- مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں دینی حمیت اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور مسلمانوں کی تکالیف اور فریاد سے لاتعلق نہیں رہنا چاہئے۔ ما لکم…

 2- اسلامی جہاد کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مظلوموں کو ظالموں کی حکمرانی سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔ «فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِینَ»۔

3- اسلام سرحدوں کا پابند نہیں ہے، جہاں کہیں مظلومین ہوں وہاں اہل ایمان پر جہاد فرض ہے۔”  وَ الْمُسْتَضْعَفِینَ”۔ 

 4- اسلامی فوج اتنی طاقتور ہونی چاہئے کہ وہ دنیا کے تمام مظلوموں کو ستمگروں سے نجات دلا سکے۔ “ما لَکُمْ لا تُقاتِلُونَ”

 5- دعوت جہاد میں لوگوں کے عواطف اور جذبات کو بروئے کار لایا جائے۔ المستضعفین… الذین یقولون ربنا…

 6- مسلمانوں پر ولایت اور سرپتی خدا کی طرف سے ہونی چاہیے۔ “مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا”

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *