‘مسجد’ نہیں مساجد کے تعلق سے مشکوک رویہ

جاویدجمال الدین

 

الہ آباد ہائی کورٹ نے ماہ رمضان سے قبل اترپردیش کے شہر سنبھل کی جامع مسجد میں رنگ و روغن کرانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اور عدالت نے صرف صفائی کی اجازت دی ہے۔واضح رہے کہ چند ماہ قبل یہاں مسجد کے دوبارہ سروے کے دوران تشدد پھیل گیا تھااور متعدد نوجوان جاں بحق ہوگئے ،جبکہ کئی درجن افراد جن میں نوجوانوں کی اکثریت تھی ،جیل میں ٹھونس دیئے گئے ہیں اور سینکڑوں کی تصاویر مسجد کی دیواروں پر چسپاں کردی گئی ہیں۔

اب عدالت نے یہ فیصلہ سنایا ہے اور اسے یکطرفہ فیصلہ قرار دیا جارہا ہے،دراصل محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایاگیا ہے، اس سے قبل بھی باربار فیصلہ سے کنفیوژن پیدا ہوگیا تھا ،جس کی وجہ سے تشدد پھیل گیا تھا،مذکورہ فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ مسجد کی موجودہ حالت میں کسی بھی قسم کے رنگ و روغن کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اے ایس آئی کا جانبدارانہ اور سرکاری دباؤ میں لیا گیا فیصلہ کہاجارہا تھا۔

مذکورہ معاملہ اس وقت عدالت میں پہنچا جب مسجد کمیٹی نے ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کر کے رمضان کی آمد سے قبل مسجدمیں صفائی اور رنگ روغن دینے کی اجازت طلب کی تھی۔تاکہ ماہ رمضان کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں عدالت نے اس معاملے میں محکمہ آثارقدیمہ( اے ایس آئی) سے عارضی پررپورٹ طلب کی تھی اور پھر تین رکنی کمیٹی نے جامع مسجد کا جائزہ لیا۔کمیٹی کی رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا کہ مسجد میں کوئی ایسی ساختی خرابی نہیں ہے، جس کی وجہ سے رنگ و روغن یا مرمت ضروری ہو۔لیکن عام چلن ہے کہ مقدس مہینے سے قبل ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

 

الہ آبادہائی کورٹ کی جسٹس روہت رنجن اگر وال کی یک رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مسجد کمیٹی فی الحال صرف صفائی کر اسکتی ہے لیکن کسی بھی طرح کے رنگ و روغن کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے اتنا ضرور کیا ہے کہ مسجد کمیٹی کو یہ موقع بھی دیا ہے کہ وہ منگل تک اپنےاعتراضات داخل کرے، جس کے بعدآئندہں سماعت ہوگی۔
واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے جامع مسجد کے حوالے سے سہ رکنی کمیٹی کو سروے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کمیٹی میں اے ایس آئی کا ایک ماہر، ایک سائنسی ماہر اور ضلع انتظامیہ کا ایک افسر شامل تھا۔انہوں مسجد کے ڈھانچے کا جائزہ لیا ،لیکن مقدس مہینے کے بارے میں کوئی توجہ دیں۔عدالت نے اسی رپورٹ کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنایاہےاور فی الحال رنگائی پتائی پر روک لگا دی۔ اس فیصلے کے بعد مسجد کمیٹی کو اب اپنی بات عدالت میں رکھنے کے لیے اگلی سماعت کا انتظار کرنا ہوگا۔ امکان ہے کہ اس سماعت میں رنگ و روغن کے تعلق سے کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال یہ مسجد کمیٹی کے لئے جھٹکا ہے۔

 

واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے جامع مسجد کے حوالے سے تین رکنی کمیٹی کو سروے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کمیٹی میں اے ایس آئی کا ایک ماہر، ایک سائنسی ماہر اور ضلع انتظامیہ کا ایک افسر شامل تھا۔ عدالت نے اسی رپورٹ کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنایا اور فی الحال رنگائی پتائی پر روک لگا دی۔ اس فیصلے کے بعد مسجد کمیٹی کو اب اپنی بات عدالت میں رکھنے کے لیے اگلی سماعت کا انتظار کرنا ہوگا۔یہ صرف سنبھل۔کی۔مسجد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں ایسا ماحول بنادیا گیا ہے اور مساجد کے سلسلہ میں یہی رویہ اپنایا جارہاہے۔
حال میں ممبئی میں بی جے پی کے ایک سابق ایم پی کریٹ سومیا نے شمال مشرقی ممبئی کے گھاٹ کوپر علاقہ میں ازخود سروے کردیا ،جوکہ فی الحال کسی عہدے پر فائز نہیں ہیں اور اگر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی خلاف ورزی کہیں ہورہی ہے تو یہ پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کارروائی کرے۔اس کے بعد ممبئی پولیس حرکت میں آئی اور نوٹس جاری کردیا گیا۔نوٹس میں سخت الفاظ اور لہجہ استعمال کیا گیا ہے۔یہ صرف مہاراشٹر اور ممبئی کی حد محدود نہیں ہے بلکہ سب سے زیادہ سنگین معاملات اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں پائے جاتے ہیں۔اتراکھنڈ اور ہماچل میں ایک حد تک خاموشی ہے،لیکن ذہنوں میں جو زہر بھر دیا گیا ہے ،وہ گہرائی تک پہنچ چکا ہے۔حال میں یوپی کے دورے میں تاج محل کی مسجد کوبند پایا اوریہاں صرف نماز جمعہ کی اجازت ہے۔پہلے ہی دہلی اور آگرہ کے قلعوں میں واقع موتی مسجد میں جمعہ کی۔نماز بند کردی گئی ہے۔شریعت ،طلاق ،وقف کے بعد مساجد،درگاہ اور خانقاہوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ،سب سے آسان طریقہ لاؤڈ اسپیکر کی تیز آواز کے بہانا بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو برادران وطن کے تہوار کے موقع پر جگہ جگہ تیز آوازوں میں لاؤڈ اسپیکر بجائے جاتے رہے اور عام شاہراہوں پر بھیڑ بھاڑ لگی نظر آئی ہے اور ٹریفک جام رہا۔

 

جہاں تک مساجد کا معاملہ ہے،ہماری بھی کوتاہیاں بھی نظر آرہی ہیں،اس سے قبل بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد میں قریبی بستی کے چند روز نماز کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں اور نماز جمعہ میں شریک ہونے کے لیے قرب وجوار کے نوجوان نہیں آتے ہیں ، منتظمین اور بزرگوں کی اپیل کے بعد بھی عمل نہیں کیاجاتاہے۔ اس کے لیے ایک جامع وٹھوس حکمت عملی تیار کرنی ہوگی تاکہ مساجد کی حفاظت کی جاسکے اور ایک بات پکے دستاویزات کی تیاری بھی ضروری ہے۔کیونکہ صرف ایک دو نہیں بلکہ مساجد کے تعلق سے رویہ مشکوک ہوچکا ہے۔

[email protected]
9867647741

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *