مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، صیہونی دشمن نے حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل شہید سید حسن نصر اللہ کے قتل کے آپریشن میں اپنی جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور چند ہی منٹوں میں F-15 طیاروں سے 80 سے زائد بم گرا دئے۔
المنار کی رپورٹ کے مطابق دستیاب معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ اس آپریشن میں استعمال ہونے والے بم “MKA 84” قسم کے تھے جنہیں امریکہ نے قلعہ شکنی کے لئے بنایا ہے۔
رپورٹ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا قتل کوئی سادہ فوجی اور سیکورٹی آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کی تیاری میں کافی وقت لگا اور یہ اقدام غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی حمایت کی وجہ سے لبنان پر حملے کے تناظر میں کیا گیا۔
متعدد ذرائع نے اس آپریشن میں بعض بین الاقوامی فریقوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ شرکت کا بھی انکشاف کیا ہے۔
تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس آپریشن کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں امریکہ کس حد تک ملوث رہا ہے۔
سیاسی اور عسکری امور کے ماہر عمر مارابونی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس منصوبے میں مزاحمتی محور کے اہم دشمن کے طور پر امریکیوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس تعاون کا ایک حصہ اسرائیلیوں کو ان میزائلوں سے لیس کرنے میں واضح طور پر نظر آتا ہے جو سید حسن نصر اللہ کی رہائش گاہ پر حملے میں استعمال ہوئے تھے۔
یہ میزائل MK84 قسم کے تھے، اگرچہ ان میں سے ہر ایک کا وزن ایک ٹن ہے لیکن ان میں سے ہر ایک 80 ٹن دھماکہ خیز مواد کو تباہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
ماربونی نے مزید کہا کہ اس جرم میں امریکہ کے دو بنیادی کردار تھے:
1: الیکٹرانک نگرانی اور نقل و حرکت کی معلومات فراہم کرنا۔
یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جدید جاسوسی آپریشن تھا جس میں پہلے اہداف کا درست تعین کیا جاتا ہے اور یہ امریکہ کے ذریعے انجام پایا۔
2: صیہونی حکومت کو مناسب ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس کرنا، جو اس آپریشن میں امریکہ کے مرکزی کردار کو ظاہر کرتا ہے، کم از کم اس معاملے میں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔”
بین الاقوامی امور کے ایک اور ماہر عدنان علام نے سید حسن نصر اللہ کے قتل میں امریکی حکومت کو ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہی نے اس قتل میں استعمال ہونے والے طیارے اور بم صیہونی رژیم کو فراہم کیے تھے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکہ کو اس قتل کے بارے میں یقیناً علم تھا کیونکہ اس قتل میں استعمال ہونے والے بم خصوصی بم تھے جن میں ختم شدہ یورینیم کو بم کی طاقت اور دھماکے کے ماحول کے درجہ حرارت کو کافی حد تک بڑھانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔
علام نے زور دیا کہ امریکہ نے شہید سید حسن نصر اللہ کے قتل میں استعمال ہونے والے سازوسامان کی فراہمی کے علاوہ اس قتل کے لیے لامحدود سیاسی مدد بھی فراہم کی جس کے نتیجے میں صیہونی حکام کو جنگی جارحیت اور انسانیت کے خلاف جرائم پر عدالتی گرفتاری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
انہوں نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے قتل میں امریکہ کی براہ راست کردار کے کئی ممکنہ پہلووں کی نشاندہی کی ہے، جو یہ ہیں:
1۔ امریکہ نے لبنان میں دنیا کا سب سے بڑا سفارت خانہ بنایا ہے جس میں ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہازوں کے لیے خصوصی لینڈنگ سٹرپ شامل ہے اور اس طرح اس کی پروازیں بیروت کے ہوائی اڈے کی نگرانی میں نہیں ہیں۔
2. لبنان کی مختلف وزارتوں اور سرکاری دفاتر میں امریکی نمائندے ہمیشہ لبنانی وزارت خارجہ کی اجازت کے بغیر اس ملک میں سفر کرتے رہتے ہیں۔
3۔ لبنان میں امریکی سفارت خانے کے پاس انٹیلی جنس کا جدید ترین کا نظام موجود ہے جو اسے بڑی مقدار میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے قابل بناتا ہے جو اس نے صیہونی حکومت کو یقینی طور پر فراہم کی ہیں۔
المنار ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے بزدلانہ اقدامات کے باوجود مزاحمت مضبوط رہے گی اور اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا جب کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شہید سید حسن نصر اللہ مزاحمت کے ایک غیر معمولی اور ابدی رہنما کے طور پر زندہ رہیں گے اور اپنی زندگی کی طرح اپنی شہادت کے بعد بھی وہ صیہونیوں میں خوف و ہراس کا باعث بنیں گے اور جلد یا بدیر صیہونی حکومت کو یہ احساس ہو جائے گا کہ وہ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کی مرتکب ہوگئی تھی۔