دبئی میں عالمی ممالک کے سربراہی اجلاس میں عالمی تبدیلیوں پر بات چیت  

 

دبئی میں عالمی حکومتوں کے سربراہی اجلاس میں مختلف ممالک کے حکومتی اور کاروباری رہنما جمع ہوئے تاکہ صحت، تعلیم، ٹیکنالوجی، بین الاقوامی تجارت اور نقل و حرکت کے شعبوں میں نئے حل تلاش کیے جا سکیں۔

 

14 فروری 2025 – دبئی میں عالمی حکومتوں کے 12ویں سربراہی اجلاس کا آغاز ہوا، جہاں دنیا بھر سے حکومتوں، کاروباری ماہرین اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں عالمی حکمرانی میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے کابینہ امور اور عالمی حکومتوں کے سربراہی اجلاس کے چیئرمین، محمد عبداللہ القرقاوی کی قیادت میں یہ اجلاس ماحولیاتی تبدیلی، معیشت، تعلیم اور عالمی تجارت کے نئے رجحانات پر گفتگو کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے۔

 

محمد القرقاوی نے کہا کہ پچھلے 25 سال غیرمعمولی تبدیلیوں سے بھرپور رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی اقتصادی نظام اب روایتی صنعتوں کے بجائے ٹیکنالوجی کمپنیوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے۔ “چین اور بھارت ترقی کر رہے ہیں، جبکہ کچھ ترقی یافتہ صنعتی ممالک زوال کا شکار ہیں۔ جو مستقبل آ رہا ہے، وہ نئے اصولوں کے ساتھ لکھا جائے گا۔”

 

اس اجلاس میں 30 سے زائد ممالک کے سربراہان، 80 سے زیادہ بین الاقوامی تنظیموں، 140 سرکاری وفود اور 6,000 سے زیادہ شرکاء نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران عالمی شراکت داری کو فروغ دینے اور ڈیجیٹل دور میں قیادت کے نئے تصورات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے کہا کہ عالمی معیشت میں حیران کن حد تک استحکام موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خلیجی ممالک کی معیشت مضبوط ہے، جبکہ یورپ اور کچھ ابھرتی ہوئی مارکیٹیں مشکلات کا شکار ہیں۔ اسی طرح، کچھ ممالک مصنوعی ذہانت (AI) کو ترقی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جبکہ دیگر ممالک اس ٹیکنالوجی کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔

 

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا حکومتیں اور انسان نئی ٹیکنالوجیز جیسے کہ AI پر قابو پا سکتے ہیں یا یہ ٹیکنالوجی ان پر حاوی ہو رہی ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ “یہ کتا ہم پر بھونک رہا ہے، اور ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے۔” مزید وضاحت کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اب دنیا “کثیر قطبی” ہو چکی ہے، جہاں کچھ ابھرتی ہوئی معیشتیں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں، کیونکہ وہ تین بنیادی اصولوں پر عمل کر رہی ہیں: قوانین میں نرمی، ڈیجیٹائزیشن، اور معیشت کو متنوع بنانا۔

کاروبار اور حکومت کا جدت کی طرف مشترکہ سفر

 

عالمی حکومتوں کے سربراہی اجلاس میں مختلف صنعتوں اور خطوں کے ماہرین نے شرکت کی، جہاں مصنوعی ذہانت (AI) کے اثرات ایک اہم موضوع رہے۔ اجلاس میں AI کے اثرات کو گاڑیوں کی صنعت، تعلیم، اور حکومتی نظام پر تفصیل سے جانچا گیا۔

 

ورلڈ اکنامک فورم کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین، کلاوس شواب نے کہا کہ حکومتوں کو عوام کو نئی ٹیکنالوجیز سے فائدہ اٹھانے کے طریقے سکھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، “مستقبل خودبخود نہیں بنتا، بلکہ ہم اسے بناتے ہیں۔ حکومت، کاروبار، اور سول سوسائٹی کو مل کر مستقبل کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔”

 

متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل معیشت اور ریموٹ ورک ایپلیکیشنز، عمر سلطان العلماء نے اجلاس میں AI کے ذریعے ملازمتوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا، “ہم ایسے اقدامات پر توجہ دے رہے ہیں جو معیشت کو متحرک رکھیں، مہارتوں میں اضافہ کریں، اور اہم شعبوں کو محفوظ بنائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ AI کا ایک جامع نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے، اور وہ آوازیں بھی شامل ہوں جو عالمی سطح پر اکثر نظرانداز ہو جاتی ہیں۔”

 

دوسری جانب، کاروباری رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ AI کی ترقی معیشت پر مثبت اثر ڈال رہی ہے، خاص طور پر لاگت میں کمی اور مسابقت کو فروغ دینے میں۔

 

IBM کے سی ای او، اروند کرشنا نے کہا کہ “ہر بڑی ٹیکنالوجی میں ایک رجحان دیکھا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ لاگت کم ہوتی ہے اور مقابلہ بڑھتا ہے۔ AI بھی اسی سمت میں جا رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی کو مزید سستا اور قابل رسائی بنایا جا سکتا ہے۔”

 

اس کے علاوہ، اجلاس میں AI کے ممکنہ فوائد، اس کی حدود اور ضوابط پر بھی غور کیا گیا۔

 

اوریکل کے ایگزیکٹو نائب صدر، مائیک سسیلا نے کہا کہ صحت کا شعبہ وہ میدان ہے جہاں AI کے ذریعے بڑی ترقی متوقع ہے۔ انہوں نے کہا، “AI حکومتوں کے لیے ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ رازداری اور سائبر سیکیورٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی کیے بغیر ایک ساتھ کام کریں۔ آئندہ چند سالوں میں، صحت کے شعبے میں AI کی بدولت بڑی کامیابیاں حاصل ہونے کی امید ہے، چاہے وہ وبائی امراض کی نگرانی ہو یا ذاتی نوعیت کی ادویات اور ویکسین کی تیاری۔”

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *