جناب شجاعت علی۔ریٹائرڈ آئی آئی ایس
l بی جے پی نقلی ہندوؤں کی پارٹی
l ہندو ازم محبت و ایثار کا ترجمان
l فاشزم کے خلاف منظم جنگ کی ضرورت
ملک کے نامور وکیل کپل سبل نے راجیہ سبھا میں یہ کہا تھا کہ مستقبل کے ہندوستان میں اصلی ہندو اور نقلی ہندوؤں کے درمیان لڑائی ہوگی اور یقینا اصلی ہندو اس لڑائی میں کامیاب ہوں گے۔ نقلی ہندوؤں کے خلاف لڑائی میں اصلی ہندوؤں کے ساتھ مسلمان ، عیسائی ، دلت اور پسماندہ طبقات کے ساتھ ساتھ درج فہرست قبائل اس جنگ کا حصہ بنیں گے۔ نفرت کا کاروبار وہیں کرتے ہیں جو ہندو نہیں ہوتے۔ ہندو مت پیار محبت اور ایثار کا ایک عظیم الشان نشان ہے جس کی ساری دنیا میں بڑی تعظیم کی جاتی ہے۔ ہمارے آقا حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے ہند سے خوشبو آرہی ہے۔ مسلم تنظیموں، ملی قائدین اور علما کا موقف ہے کہ وقف ترمیمی بل کے قانون بننے کی صورت میں مرکزی حکومت کو ایسے اختیارات مل جائیں گے
جن کی مدد سے وہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی وقف املاک کو ’ہڑپ‘ کر سکتی ہے اور وقف کے اداروں کو ‘تباہ’ کر سکتی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ نئے بل میں کلکٹر کو بہت زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں، جب کہ اصولی طور پر کلکٹر جج نہیں بن سکتا۔ بورڈ کا مزید کہنا ہے کہ ‘اس وقف ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت وقف کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریاستی حکومتوں کو اس سے باہر کرنا چاہتی ہے۔ اس سے مرکزی حکومت کو زیادہ اختیارات مل جائیں گے۔ وہیں ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی ایک بیان میں سوال اٹھایا کہ کلکٹر وقف املاک کا جج کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘اس بل کے ذریعہ حکومت مسلمانوں سے وقف املاک چھیننا چاہتی ہے۔ اس بل کے تعلق سے حکومت کی منشا شہری امور کی مرکزی وزارت کے بیان سے بھی واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ مرکزی وزارت نے اس ترمیمی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں قانونی لڑائیوں اور عدالتی کیسز میں کمی واقع ہوگی۔
وزارت نے کہا کہ ‘1970 اور 1977 کے بیچ وقف بورڈ نے نئی دہلی میں 138 جائیدادوں کو اپنا بتاتے ہوئے عدالتوں میں دعوے کیے، جس کی بنیاد پر طویل قانونی لڑائیاں چلیں۔ بی جے پی اس بات سے بھی با خبر رہی ہوگی کہ جے ڈی یو اور تیلگو دیشم سمیت دیگر این ڈی اے کی حلیف پارٹیاں مسلمانوں اور بی جے پی حکومت کے موقف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے میں پش و پیش اور مشکل صورت حال کا شکار ہو جائیں گی۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بی جے پی اس بل کو کیوں لائی؟ ممکنہ طور پر بی جے پی اپنی اتحادی پارٹیوں کی حمایت اور ان کی وابستگی کو جانچنا چاہتی ہو، نیز اس بل سے مرکزی حکومت کے اختیارات میں جو اضافہ ہوگا وہ بات اپنی جگہ ہے۔ اس بل کے تعلق سے ملی قائدین اور مسلم لیڈران یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اس کو قانون بنا کر مرکزی حکومت متنازع مذہبی مقامات اور وقف اراضی کو ‘ہڑپ’ کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ اسد الدین اویسی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ ‘بی جے پی وقف اراضی کو چھیننا چاہتی ہے۔’ ملی تنظیموں اور قائدین کے مطابق حکومت اس بل کے قانون بننے کی صورت میں مرکزی حکومت اس کے ذریعہ متنازع مذہبی مقامات اور وقف اراضی کے تعلق سے سخت گیر ہندو تنظیموں کے مندر والے دعوؤں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرے گی۔ اس خدشے کے مطابق جن متنازع اراضی پر ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ
یہ ہندو مذہبی مقامات پر تعمیر کیے گئے ہیں، حکومت مستقبل میں اس بل کو تنظیموں کے دعوؤں کی حمایت میں استعمال کر سکتی ہے۔ وقف ترمیمی بل 2024 میں پرانے قانون ‘وقف ایکٹ 1995’ کا نام بدل کر ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995’ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت وقف بورڈز کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنی املاک کو ضلع کلکٹر کے پاس رجسٹر کرائیں تاکہ ان کی اصل قیمت اور حیثیت کا تعین کیا جا سکے۔ یہ بل ”وقف” کو کسی بھی فرد کے وقف کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کم از کم پانچ سال تک اسلام پر پر قائم رہا ہو اور اس کے وقف میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہو کہ وقف علی الاولاد کی صورت میں وراثت میں خواتین کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔ اس بل میں بورڈ کے اختیارات سے متعلق سیکشن 40 کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے تحت بورڈ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں۔
اس بل میں متوالوں کی سرگرمیوں پر بہتر کنٹرول کے لیے انہیں وقف کے اکاؤنٹس بورڈ کو ایک مرکزی پورٹل کے ذریعے جوڑنے کی سہولت فراہم کرنے، دو ممبران پر مشتمل ڈھانچے کے ساتھ ٹریبونل میں اصلاحات کرنے اور ٹربیونل کے احکامات کے خلاف 90 دنوں کی مخصوص مدت کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اس بل کے مطابق مختلف ریاستی بورڈز کی جانب سے دعوی کردہ متنازع زمینوں کی نئے سرے سے تصدیق بھی کی جائے گی۔ اس بل میں بوہرہ اور آغاخانی مسلمانوں کے لیے الگ سے وقف بورڈ کے قیام کا بھی التزام کیا گیا ہے۔ ترمیمی بل میں وقف بورڈ کی تشکیل میں تبدیلی کرتے ہوئے ان میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ واضح رہے کہ فی الوقت ملک بھر میں وقف بورڈز کی ملکیت میں 9.4 لاکھ ایکڑ پر پھیلی 8.7 لاکھ جائیدادیں ہیں۔ وقف بورڈ ہندوستان میں تیسرا سب سے بڑا لینڈ بینک رکھتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ وقف املاک کی آمدنی، ان کا استعمال اور ان افادیت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ دو دن قبل ہی اپوزیشن ارکان کی تمام تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے جے پی سی کے صدرنشین جگدمبیکا پال نے اپنی رپورٹ اسپیکر کو پیش کردی اس عمل نے ثابت کردیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جمہوریت اور انسانیت کی قاتل ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سارا ہندوستان یک جٹ ہوکر بھارتیہ جنتا پارٹی کی شرمناک حرکتوں کے خلاف کمربستہ ہوجائے تاکہ ملک کو ایک نئی راہ دکھائی جاسکے جہاں ہر فرقے ، ہر طبقے اور ہر شہری کو مساوات کی نئی روشنی مل سکے۔ ہندوستان کے ہر شہری کو اب یہی کہنا ہوگا کہ
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے