کوہیکوڑ: ریسرچ اینڈ انالسیس ونگ (را) کے سابق سربراہ اے ایس دُولت نے خبردار کیا ہے کہ 2024 کے الیکشن کے بعد کشمیریوں کی ”خوشی“ عارضی ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا وعدہ پورا کیاجائے۔ چیف منسٹر عمرعبداللہ اور مرکز دونوں کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔
اے ایس دُولت نے ہفتہ کے دن کہاکہ عمر عبداللہ نے چیف منسٹر بننے کے فوری بعد مرکزی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ وہ جموں وکشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کا زیادہ مطالبہ نہیں کررہے ہیں۔ را کے سابق سربراہ نے کہا کہ عمر کیا مانگ رہے ہیں؟۔ ایک کشمیری کی توقع کیا ہے؟۔ دفعہ 370 جاچکی ہے لیکن یہ کشمیریوں کے ذہن سے محو نہیں ہوئی ہے۔
وہ لوگ ابھی بھی دفعہ 370 کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن عمر عبداللہ جانتے ہیں کہ یہ دفعہ واپس آنے والی نہیں۔ وہ اپنی عزت نفس، ریاستی درجہ چاہتے ہیں۔ اے ایس دُولت نے جو 1999 تا 2000 ملک کی خارجی انٹلیجنس ایجنسی کے سربراہ رہے کہا کہ اُن کے خیال میں دہلی اور سری نگر دونوں کے مفاد میں ہے کہ ریاستی درجہ جلد سے جلد بحال کردیا جائے۔ دونوں کی ساکھ کیلئے ایسا کرنا ہوگا ورنہ عمر عبداللہ اور دہلی دونوں اپنی ساکھ کھودیں گے۔
اے ایس دُولت کوہیکوڑ میں کیرالا لٹریچر فیسٹیول میں اپنی خود نوشت سوانح”A Life in the Shadows: A Memoir” پر اظہار خیال کررہے تھے جسے ہارپر کولنس انڈیا نے شائع کیا ہے۔ 85 سالہ اے ایس دُولت نے تشویش ظاہر کی کہ جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ جلد بحال ہونے کا امکان نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ الیکشن کے فوری بعد اسے بحال کردینا چاہئے تھا۔ اُنہوں نے کہاکہ اب ریاستی درجہ ایک مسئلہ بن گیا ہے۔
دہلی کا کہنا ہے کہ ہاں ہم ریاستی درجہ کی بحالی کے پابند ہیں لیکن اپنے پسندیدہ وقت پر کریں گے۔ جلد بحالی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ نریندرمودی حکومت نے اگست 2019 میں دستور کی دفعہ 370 برخاست کردی تھی۔ یہ دفعہ جموں وکشمیر کو خصوصی موقف عطاء کرتی تھی۔ 370 کی برخاستگی کے بعد جموں وکشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ میں بانٹ دیا گیا تھا۔ را کے سابق سربراہ نے خبردار کیا کہ کشمیریوں کے چہروں پر دکھائی دینے والی ظاہری خوشی عارضی ہے۔
مثال کے طورپر جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کیلئے آئندہ 6 ماہ میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا تو کشمیری پھر الزام عائد کرنے لگیں گے کہ نئی دہلی کی طرف سے چالیں چلی جارہی ہیں۔ وہ چیف منسٹر پر تنقید کریں گے کہ اُس نے اس سلسلہ میں کچھ بھی نہیں کیا۔ فی الحال عوام عارضی طورپر خوش ہیں کیونکہ وہ اسے کشمیریوں کی جیت کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی پسند کی حکومت نیشنل کانفرنس کی حکومت چن لی جوعلاقائی جماعت ہے۔ یہ عبداللہ خاندان کی جیت ہے جو کشمیری فیملی ہے لیکن یہ جیت دیرپا نہیں ہے۔
کشمیریوں کو اگر وہ نہیں ملا جو اُنہیں ملنا چاہئے تو عوام پھر کہنے لگیں گے کہ یہ حکومت اچھی نہیں ہے۔ اے ایس دُولت نے کہاکہ جموں وکشمیر میں آج دو متوازی حکومتیں چل رہی ہیں۔ ایک حکومت عمر عبداللہ کی ہے اور دوسری لفٹننٹ گورنر منوج سنہا کی ہے۔ اے ایس دُولت نے مانا کہ کشمیر نے اُنہیں بہت کچھ سکھایا۔
اُنہوں نے زوردیکر کہاکہ دہلی کو خطہ کی پیچیدگی سمجھنے کی چاہئے۔ کشمیر میں ہم کیا چاہتے ہیں یا وہ کیا چاہتے ہیں والا معاملہ نہیں ہے۔ بات درمیانی راستہ کی ہے۔ ہمیں درمیانی راستہ پر چلنا ہوگا۔ کیرالا لٹریچر فیسٹیول 23 جنوری کو شروع ہوا۔ اس میں 15 ممالک کے 500 مقررین حصہ لے رہے ہیں۔ کوہیکوڑ بیچ پر اس کتاب میلہ میں شائقین کتب کا ہجوم ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق تقریباً 6لاکھ افراد نے اس میں شرکت کی ہوگی۔
Photo Source: @HarperCollinsIN