نئی دہلی ۔ جنگ بندی معاہدہ کے تحت اسرائیل کی قید سے رہا ہوکر 90 فلسطینی اپنی سرزمین واپس پہنچے، قیدی سفید والوو بسوں میں سوار ہو کر غزہ کی سرحد کے قریب پہنچے تو ان بسوں کا استقبال کرنے کے لیے ہزاروں فلسطینی وہاں موجود تھے، پورا شہر جشن میں ڈوبا ہوا تھا۔
استقبال کرنے والوں میں بہت سے لوگ اپنے پیاروں کی واپسی کی خوشی میں جذباتی ہو گئے۔ بعض کی آنکھوں میں اشک تھے جب انہوں نے اپنے بچھڑے ہوئے عزیزوں کو دوبارہ پایا اور ایک دوسرے کو گلے لگا کر اس لمحے کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنا لیا۔ بسوں کی چھتوں پر چڑھ کر نوجوانوں نے فتح کے نشان دکھائے اور فلسطینی پرچم کو بلند کیا۔ اس موقع پر حماس اور حزب اللہ کے پرچم بھی لہرا رہے تھے جو اس فتح اور اتحاد کا علامت بنے۔
یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جس کے بعد اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدیوں کو آزادی دے دی۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جس میں محض قیدیوں کی رہائی نہیں بلکہ ایک قوم کی آزادی اور استقامت کی جیت کا پیغام تھا۔یہ منظر صرف ایک سیاسی معاہدہ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک انسانی داستان تھی جس میں محبت، قربانی اور آزاد ہونے کی تڑپ کی عکاسی تھی۔
ان قیدیوں کی رہائی صرف ان کی ذاتی آزادی کا جشن نہیں تھا بلکہ ایک ایسی قوم کے لیے خوشی کا لمحہ تھا جو طویل عرصہ سے اپنے حق آزادی اور انصاف کے لیے لڑ رہی ہے۔