اقلیتی طبقہ کے خلاف متنازعہ بیان دینے والے جسٹس شیکھر یادو ’رام مندر تحریک‘ پر منعقد پروگروم سے کریں گے خطاب

جسٹس یادو کی حمایت میں ایک عرضی عدالت میں داخل کی گئی تھی۔ اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جسٹس یادو کے خلاف کارروائی نہ کی جائے کیونکہ ان کا بیان ایک جج کے طور پر نہیں بلکہ ایک ہندو کے طور پر تھا۔

<div class="paragraphs"><p>جسٹس شیکھر یادو</p></div><div class="paragraphs"><p>جسٹس شیکھر یادو</p></div>

جسٹس شیکھر یادو

user

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو 22 جنوری کو رام مندر تحریک پر منعقد ایک پروگرام سے خطاب کریں گے۔ یہ وہی جسٹس شیکھر ہیں جنہوں نے وی ایچ پی کی جانب سے 8 دسمبر 2024 کو منعقد ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے اقلیتی طبقہ کے حوالے سے متنازعہ بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کا نظام اکثریتی طبقہ کے مطابق چلے گا۔ انھوں نے مسلم طبقہ کے لیے ’کٹھ ملا‘ جیسے متنازعہ لفظ کا بھی استعمال کیا تھا۔ ملکی سطح پر ان کے بیان کی مذمت کی گئی تھی، اپوزیشن نے ان کے خلاف پارلیمنٹ میں ’مواخذے کی تحریک‘ لانے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھی ہی سپریم کورٹ نے ان کے خلاف تحقیقات بھی شروع کی ہوئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 22 جنوری 2025 کو مہاکمبھ میلہ میں ایک پروگرام بعنوان ’رام مندر آندولن اور گئو رکشا پیٹھ‘ منعقد ہونے والا ہے۔ واضح ہو کہ گزشتہ سال 22 جنوری 2024 کو ہی ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر میں رام للّا کی ’پران پرتشٹھا‘ ہوئی تھی۔ اب ایک سال بعد منعقد ہو رہے پروگرام سے جسٹس شیکھر کمار یادو کے علاوہ آر ایس ایس کے سینئر پرچارک اشوک بیری، وِشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے جنرل سکریٹری دنیش کمار وغیرہ بھی خطاب کریں گے۔

قابل ذکر ہے کہ جسٹس شیکھر یادو نے جس پروگرام میں اقلیتی طبقہ کے خلاف زہر افشانی کی تھی اس کا انعقاد وی ایچ پی کے لِیگل سیل نے کرایا تھا۔ اس پروگرام میں بنیادی طور پر یونیفارم سول کوڈ، سیکولرزم جیسے موضوعات پر گفتگو ہوئی تھی۔ ایک معزز عہدہ پر رہتے ہوئے شیکھر یادو کے متنازعہ بیان پر کپل سبل جیسے سینئر وکیل نے بھی اعتراض کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر نوٹس لیتے ہوئے جسٹس شیکھر کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے۔ ساتھ ہی اس معاملے میں کالجیم بھی ایک بار جسٹس شکیھر کو طلب کر چکی ہے۔ واضح ہو کہ جسٹس یادو کی حمایت میں بھی ایک عرضی عدالت میں داخل کی گئی تھی۔ اس عرضی میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جسٹس یادو کے خلاف کارروائی نہ کی جائے کیونکہ ان کا بیان ایک جج کے طور پر نہیں بلکہ ایک ہندو کے طور پر تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *