مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے 15 ماہ قبل غزہ کی پٹی میں حماس کی یقینی تباہی کا اعلان کیا تھا، لیکن اس کے برعکس آج اسے جنگ بندی معاہدی قبول کرنا پڑا۔
عرب تجزیہ نگاروں نے جنگ بندی معاہدے میں غزہ کی پٹی خاص طور پر نیتساریم اور فلاڈیلفیا کوریڈور سے تل ابیب کی دستبرداری کو فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں قابض رجیم کی سب سے بڑی شکست قرار دیا ہے۔
صیہونی چینل i24 نیوز نے اعتراف کیا ہے: تل ابیب نے اس معاہدے میں بہت کچھ کھویا ہے جب کہ حماس کی پوزیشن بہتر رہی ہے۔ اس تحریک نے اپنی سابقہ طاقت دوبارہ حاصل کر لی ہے جس کا زبردست مظاہرہ شمالی غزہ میں میں ہوا، ایسے میں صیہونی جنگ کے کون سے مقاصد پورے ہوئے؟
عرب دنیا کے ممتاز تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے کہا: اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معاہدے میں کون فاتح ہے تو نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے وزراء کے افسردہ چہروں دیکھیں کہ وہ کس قدر پریشان ہیں۔ لیکن ہم فلسطینیوں میں خوشی کی لہر دیکھ رہے ہیں۔ 15 ماہ گزر چکے ہیں لیکن نیتن یاہو کا کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ فلسطینی عوام کی مزاحمت نے نیتن یاہو کو معاہدہ کرنے پر مجبور کردیا۔ گویا فلسطین کے مزاحمتی رہنماؤں کے پاس طاقتور اعصاب اور اسٹریٹجک صبر تھا جو بالآخر کامیاب ہوا۔
المیادین ٹی وی چینل کی ویب سائٹ نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے: غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کی بربریت کے 15 ماہ کے بعد، تل ابیب کے حکام انتہائی پیچیدہ حالات کے باعث فلسطینی مزاحمت کے جائز مطالبات کا مثبت جواب دینے پر مجبور ہوئے۔
القدس نیوز چینل نے فلسطینی شہریوں کا ایک انٹرویو شائع کیا جس میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ نیتساریم اور فلاڈیلفیا سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن انہوں نے فلسطینی قوم کی مزاحمت اور استقامت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم غزہ میں حماس کی موجودگی اور مزاحمت کو برداشت نہیں کریں گے لیکن آج انہیں جنگ بندی کی تجویز پر حماس کے جواب کا انتظار کرنا ہوگا۔
اماراتی چینل اسکائی نیوز نے بھی ایک رپورٹ شائع کی: غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد لوگوں نے جشن منایا، اس معاہدے کی کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی دشمن کے خلاف ان کی بے مثال استقامت نے فلسطینی قوم کو فتح دلائی ہے۔
مصری کی رویا نیوز نے ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا مطلب صیہونی حکومت کی شکست ہے، کیونکہ اس حکومت نے ابتدا میں ہی غزہ کی پٹی پر مستقل طور پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اب نہ صرف اسے اس علاقے سے پیچھے ہٹنا ہوگا بلکہ حماس سمیت دیگر فلسطینی مزاحمتی قوتیں اس علاقے میں سرگرم عمل ہیں اور تل ابیب اس تحریک کو تباہ کرنے کا اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا۔
عرب سوشل میڈیا صارفین بھی صیہونی حکومت کی شکست اور فلسطینی مزاحمت کی فتح پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
علی الناسی نامی صارف نے مزاحمتی قوتوں کی کامیابیوں کے بارے میں لکھا: اس معاہدے سے صیہونی فوج غزہ میں پہلے سے اعلان کردہ اہداف کے حصول میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئی ہے، جب کہ حماس اب بھی اتنی مضبوط ہے کہ آخری دم تک مقبوضہ علاقوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
محمد نامی ایک اور صارف نے لکھا: صیہونی حکومت نے جنگ بندی معاہدے کے بعد 81 فلسطینیوں کو شہید کیا۔ کیا یہ وہی دشمن ہے جس سے کئی ممالک تعلقات معمول پر لانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں؟
ایک عرب صارف نے یہ بھی لکھا: قوموں کی قوت ارادی کبھی ناکام نہیں ہوگی اور اس فتح کا فوجی ہتھیاروں کی مقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ طاقت صرف ہتھیاروں سے نہیں آتی بلکہ ایمان اور ارادے سے آتی ہے۔
حسین الصفی کے نام سے ایک صارف نے لکھا: تاریخ لکھے گی کہ شیعوں نے اپنا سب کچھ غزہ پر قربان کر دیا۔ ہم ایران، لبنان اور یمن کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔”