نئی دہلی: کانگریس نے آج سپریم کورٹ میں ایک مداخلتی درخواست داخل کی جس نے گزشتہ ماہ 1991 کے عبادتگاہوں سے متعلق قانون کی بعض دفعات کو چالنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع کی ہے۔
کانگریس نے اس قانون پر سختی سے عمل آوری کرنے کا مطالبہ کیاہے اور اس معاملہ میں عدالت سے رجوع ہونے میں دیگر اپوزیشن جماعتوں بشمول اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ شامل ہوگئی ہے۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں عدالت نے اویسی کی درخواست کی سماعت سے اتفاق کیاتھا اور حکم دیاتھا کہ 17 فروری کو دیگر درخواستوں کے ساتھ ان کی درخواست کی بھی سماعت کی جائے۔
سینئر لیڈر کے سی وینو گوپال کی جانب سے کانگریس کی درخواست داخل کی گئی۔ ا س میں کہاگیا کہ اپوزیشن جماعت نے یوپی اے حکومت کے سربرا ہ کی حیثیت سے اپنے دور اقتدار میں اس قانون میں منظور کیاتھا۔ اس وقت کے وزیرداخلہ ایس بی چوان نے جب یہ بل پیش کیاتھا تو انہوں نے حقیر مفادات حاصلہ رکھنے والے چند گوشوں کی جانب سے بڑھتی عدم رواداری کو اجاگر کیاتھا۔
33 سال بعد کانگریس ان اپوزیشن جماعتوں کی فہرست میں شامل ہوئی ہے جو اس قانون کی کلیدی دفعات یعنی عبادتگاہوں پر دوبارہ دعوی کرنے کے لیے مقدمات پر پابندی لگانے یا عبادتگاہوں کے 15اگست 1947 کے وقت موجود کردار کو تبدیل کرنے سے روکناہے۔ کانگریس نے اپنی درخواست میں کہاکہ یہ قانون ہندوستانی سماج کی سیکولر نوعیت کا تحفظ کرنے کے لیے ضروری ہے اور انتباہ دیا کہ ان تبدیلیوں سے سماجی تانے بانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔
کانگریس نے یہ بھی دلیل پیش کی کہ یہ قانون اس لیے منظور کیاگیاتھا کہ کیونکہ یہ ہندوستانی عوام کا خط اعتماد تھا اور آج کے چالنجس محرکات پر مبنی اور سیکولر ازم کے مسلمہ اصولوں کو کمزور کرنے کی ناپاک کوشش ہیں۔ اس مقدمہ کی پچھلی سماعت کے موقع پر 12 دسمبر کو عدالت عظمی نے عبادتگاہوں بشمول مساجد کے تمام سرویز کو روک دیاتھا جو نچلی عدالتوں کے حکم پر کئے جارہے تھے۔
ان میں وارانسی کی گیان واپی مسجد‘ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور اترپردیش کے سنبھل کی ایک مسجد کے سروے شامل ہیں۔ ہندو درخواست گزاروں نے ان مساجد کے بارے میں دعوی کیاہے کہ یہ قدیم ہندو مندروں کے ڈھانچوں پر تعمیر کی گئی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ حکومت کی جانب سے جواب داخل کئے جانے تک تمام سروے روک دیئے جائیں اوروہ جواب داخل کئے جانے تک کوئی رولنگ نہیں دے سکتی۔