موہن یادو نے گزشتہ دنوں کچھ گاؤں کے نام بدلنے کا اعلان کیا تھا، یہ مسلم نام والے علاقے تھے، اسی کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس نے ان گاؤں کا نام بدلنے کا مطالبہ کیا ہے جن سے کسی ذات یا نسل کا پتہ چلتا ہے۔
مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت میں لگاتار گاؤں، شہر، اسٹیشنوں اور سڑکوں کے نام بدلے جا رہے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو بھی اجین میں 3 گاؤں کے نام بدلنے کا اعلان وزیر اعلیٰ موہن یادو کے ذریعہ کیا گیا۔ یہ تینوں ہی گاؤں مسلم نام والے تھے۔ اس عمل کے بعد کانگریس نے وزیر اعلیٰ موہن یادو کو ایک خط لکھا ہے جس میں کئی مقامات کے نام بدلنے کی گزارش کی گئی ہے۔ لیکن یہ نام مسلمانوں والے نہیں ہیں، بلکہ ایسے ہیں جن سے کسی نہ کسی ذات کا پتہ چلتا ہے۔
مدھیہ پردیش کانگریس کے ترجمان بھوپیندر گپتا نے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر موہن یادو کو خط لکھ کر ذات پر مبنی علاقوں کے ناموں کو بدلنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے سوال کیا ہے کہ حکومت اگر اردو (مسلم) والے گاؤں کے نام سے فکر مند رہتی ہے تو اسے ذات پر مبنی لفظوں والے گاؤں کے ناموں پر اعتراض کیوں نہیں ہوتا؟ بھوپیندر گپتا نے خط میں لکھا ہے کہ ٹیکم گڑھ ضلع میں یو ای جی ایس اسکولوں میں لوہارپورہ، ڈھمرولا، ڈھمریانا، چمرولا، چمرولا خلق جیسے نام ہیں جو آئینی طور سے غلط ہیں اور سماجی طور پر قابل اعتراض بھی ہیں۔ ایسے نام ہر ضلع میں سینکڑوں کی تعداد میں مل سکتے ہیں۔ انھیں بدل کر سَنتوں اور عظیم ہستیوں کے نام پر رکھا جانا چاہیے۔
اس خط میں بھوپیندر گپتا نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے بی جے پی گزشتہ 20 سالوں سے شہروں، قصبوں کا نام بدل رہی ہے، اس کی تشہیر بھی کر رہی ہے، لیکن ذات اور نسل پر مبنی گاؤں کے ناموں پر غور نہیں ہو رہا۔ وزیر اعلیٰ موہن یادو نے جب اتوار کے روز اجین کے 3 گاؤں کے نام بدلے تھے اسٹیج سے کہا تھا کہ ’مولانا‘ لکھنے میں قلم اٹکتا تھا۔ دراصل جن 3 گاؤں کے نام بدلے گئے ہیں ان کے نام مولانا (اب وکرم نگر)، جہانگیر پور (اب جگدیش پور) اور غزنی کھیڑی (اب چامنڈا ماتا نگری) تھے۔ اس معاملے میں بھوپیندر گپتا نے کہا کہ ’’ذات اور نسل والے ناموں کے گاؤں کا نام لکھتے ہوئے بھی وزیر اعلیٰ کا قلم اٹکنا چاہیے۔‘‘