تونہ مٹ جائگا ایران کے مٹ جانے سے

دنیا آج ایک غیرمعمولی صورتِحال کے دور سے گزر رہی ہے، جو مختلف بحرانوں کے امتزاج سے عبارت ہے۔

ایک طرف مہنگائی جیسی معاشی مشکلات عام لوگوں کی زندگیوں پر شدید اثر ڈال رہی ہیں تو  زندگی گزارنے کے اخراجات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ یہ وسیع پیمانے پر بے چینی اور مایوسی کا باعث بن رہے ہیں۔

دوسری طرف،   گلوبل  امیگریشن—چاہے وہ جنگوں، معاشی ناہمواری یا ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہو—ایک نئی پیچیدگی کو جنم دے رہی ہے، جو کئی ممالک کے سماجی و سیاسی ڈھانچے کو چیلنج کر رہی ہے۔

یہ دونوں مظاہر اس تحریک کو ہوا دے رہے ہیں جسے پاپولزم(Populism) کہا جاتا ہے۔

یہ ایک سیاسی نظریہ یا تحریک ہے جو عوام کی مایوسیوں پر پروان چڑھتی ہے۔ اس سے پہلے دنیا صرف قدامت پسند Conservatives) )یا  لبرل (Librals)   میں بٹی ہوی تھی۔

چاہے یوروپ ہو یا امریکہ ہو یہ سب ملک اب اہستہ اہستہ گلوبلائزیشن  (Globalization) کو چھوڑ کر ایک نیا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں جسے  Ultra Nationalism   کہا جاتا ہے اور پاپولزم جیسی تہریک اس کا زریعہ بن رہی ہے۔

پاپولزم اکثر “عام عوام” اور اشرافیہ کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے، اور اس کا عروج عالمی سیاست میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

ماضی کے ادوار میں سیاسی تقسیم زیادہ تر نظریاتی ہوتی تھی—جیسے قدامت پسندوں اور لبرلز کے درمیان—لیکن آج کے منظرنامے میں زیادہ تر بحثیں شناخت، قوم پرستی اور معاشی عدم تحفظ کے گرد گھوم رہی ہیں۔

اس پس منظر میں، دنیا خیالات اور طاقت کی منڈی میں ایک بڑی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ ایک نیا نظام سامنے آ رہا ہے۔

یہ عوام بےچین ہے کی کسی   طرح  Establishment  کو بے نقاب کرے اور جو روایتی حکومتین چل رہی ہین ان کو برخواست کریں۔ 2024  کے  اخیر میں یہ بہت ہی صاف نظر آرہا  ہے۔

یوروپ کی تیں بڑے ممالک جرمنی،فرانس،   امریکا،اورا یٹلی میں یہ بحران بہت طول پکڑ چکا ہے۔

قائم شدہ اصولوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے، جس سے اصلاحات کے مواقع کے ساتھ ساتھ مزید عدم استحکام کے خطرات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

عوام اب اپنی حکومتوں کو بہت سارے مسائل کھڑے کر رہی ہے اور Immigrants  کو بہت زیادہ نشانہ بنا رہے ہیں۔ 

آمریکہ بھی ایک ایسی ہی کچھ کیفیت    سےگزر رہا  ہے۔

یہاں پر حال ہی میں الیکشں ہوئے اور جناب ڈونلڈ ترمپ اسی طرح پوپولسٹ طبقہ کے منشہ  کا پورا استعمال کیا اور حکومت قائم ہو گئی۔ 

یہاں پر بھی وہی  نقطِ نظر درکار ہے حالانکہ

پاپولزم کے عروج، اور معاشی و ہجرتی دباؤ کے ساتھ، موجودہ نظام سے ایک گہری عدم اطمینان کا اظہار ہوتا ہے۔

یہ سیاسی قیادت اور عوام کے درمیان موجود فاصلے کو اجاگر کرتا ہے، جو عالمی سطح پر، ٹیکنالوجی میں تبدیلی، اور ثقافتی تغیرات کے باعث مزید بڑھ گیا ہے۔

جیسے جیسے یہ دباؤ بڑھتے جا رہے ہیں، سوال یہ ہے: کیا یہ تعمیری تبدیلی کی راہ ہموار کرے گا یا مزید تقسیم کا سبب بنے گا؟

یہ جنگ اب ایک معنئ میں قدامت پسند، لبرل اور پوپولسٹ کے درمیاں  تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ پوپولزم اب قدامت پسند  اور لبر ل دونون حکومتوں کو بڑی ٹککر دے رہی ہے۔

  پوپولسٹ چاہتے ہیں کی  اب  اُن کی حکومتیں  کلایمیٹ چینج   کا جو وبال چل رہا ہے وہ ختم ہو۔

 جوImmigrants

  ، دوسرے  ممالک سے آیے ہوئے کو اپنے آباٰءٰی وطن واپس بھیجیں ، اور اپنی عوام کو بہتر معاشی صورتِحال مُحیا کرے۔

یہ حرکیات ایک ایسے عالمی نظام کی عکاسی کرتی ہیں جو تبدیلی کے دوراہے پر ہے—جہاں روایتی نظام کو مسترد کرنا یا تو جدید حل کے لیے راستہ فراہم کرے گا یا موجودہ مسائل کو مزید بڑھا دے گا۔

خیالات کی منڈی، بالکل عالمی معیشت کی طرح، اب مستقبل کے مختلف تصورات کے درمیان ایک میدان جنگ بن چکی ہے۔

اسی دھککم  دھککی میں کئی مرتبہ حکومتیں بن بھی سکتی ہیں  اور  گر بھی سکتی ہیں۔

اچچھی بات  یہ ہے کی یہ نئی  تحریک  (پوپولزم) ابھی پورے زور پر نہٰں ہے کے  خود اپنی طاقت اور بلبوتے پر حکومتیں بنا سکے اور ایک   Established    پارٹی کا سہارا  لے رہی ہے جیسا کے امریکہ میں   Republican  پارٹی کا سہارا لیا ہے۔

بحر حال ان سبھی بین الاقوامی سیاست کے بیچ اُممتِ مسلِمہ یہ سونچین کے اب اُنہیں کیا کرنا ہے۔کہا جاتا ہے کی ہر  Challenge  ایک   Opportunity 

فراہم کرتا ہے۔ جہان یہ سب صورتِحال چل رہی ہے وہان مسلماں یہ سونچین کی کس طرح ہم اپنا رُخ  بدل کر اپنے آپ کو  اِس بدلتی ہوی بین الاقوامی  سیاسی  سرگرمیان اپنی قوم کے لیے کارآمد  بنا  ءین۔۔

عللمہ اقبال نے کہا تھا  ۔۔۔۔۔۔۔

تو ،   نہ  مٹ جائگا ایران کے مٹ جا نے سے۔

نشئے مئہ کو تعلق نہی پیما نے سے۔۔۔۔

آپ کے سامنے بھی اب نئے زمان اور مکان  ہے۔

آپ اپنے آپ کو ایک موقع دیں اور سونچین ۔ کیونکی آپ سب کو پتہ ہے کی اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جس میں سیاست بھی اہم کردار عدا کرتی ہے۔

ہم بے شک صحابہَ کرام کے دور کی حکومتون کا تصؤر کر لین مگر وہ نہی لا سکتے، کیونکہ ہم میں ابھی صحابہَ کرام  جیسی صلاحیتیں موجود نہی ہیں۔

ہم سب مل کر پہلے اچچھے انسان بنے پھر ہم  بیٹھ کر  سونچینگے کی کس طرح کی ہم حکومت بناءنگے کیونکہ ہم وہ مئہ ہے جس کو تعلق نہی پیمانے سے۔۔۔۔

منہاج الدین خان، ملک زکریہ نیو جرسی – امریکہ



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *