آر جی کر کیس: متاثرہ کے والدین سی بی آئی تحقیقات سے ناخوش، نئے سرے سے جانچ کے لیے ہائی کورٹ میں عرضی داخل

[]

جسٹس تیرتھانکر گھوش نے والدین کے وکیل سے کہا کہ وہ سی بی آئی کو عرضی میں فریق بنائیں اور پیر کے روز معاملے کو عدالت میں پھر سے پیش کریں۔ ابھی سی بی آئی ہی معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔

سی بی آئی کے دفتر کی تصویر سی بی آئی کے دفتر کی تصویر 
سی بی آئی کے دفتر کی تصویر
user

آر جی کر میڈیکل کالج میں زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل معاملے میں ہوئی جانچ سے اس کے والدین ناخوش نظر آ رہے ہیں۔ متاثرہ کے والدین نے جمعرات کو کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک نئی عرضی داخل کی ہے جس میں واقعہ سے متعلق جاری جانچ پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔ عرضی میں عدالت سے پورے معاملے کی نئے سرے سے جانچ کرانے کی ہدایت دینے سے متعلق گزارش بھی کی گئی ہے۔

اس معاملے میں جسٹس تیرتھانکر گھوش نے متاثرہ کے والدین کی طرف سے پیش وکیل سے کہا کہ وہ سی بی آئی کو عرضی میں فریق بنائیں اور پیر کے روز معاملے کو عدالت میں پھر سے پیش کریں۔ ابھی سی بی آئی ہی اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ واقعہ رواں سال 9 اگست کو سامنے آیا تھا جب آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہاسپیٹل کے سمینار ہال میں ڈیوٹی پر تعینات زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کی لاش برآمد کی گئی تھی۔ اس کے بعد کولکاتا کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں ڈاکٹر طبقہ سڑکوں پر نظر آیا اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی ڈاکٹروں کے تحفظ سے متعلق سخت قوانین لانے کی مانگ بھی زور و شور کے ساتھ اٹھائی گئی۔

اس درمیان سیالدہ کورٹ نے 13 دسمبر کو آر جی کر میڈیکل کالج و اسپتال کے سابق پرنسپل سندیپ گھوش اور تلا تھانے کے افسر ابھجیت منڈل کو اس معاملے میں ضمانت دے دی تھی۔ انھیں ضمانت اس لیے دی گئی کیونکہ سی بی آئی ان کے خلاف 3 مہینے کی قانونی مدت کار کے اندر فرد جرم داخل نہیں کر پائی تھی۔ گھوش پر عصمت دری و قتل معاملہ میں ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا الزام تھا، جبکہ پولیس افسر پر ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سی بی آئی نے کلیدی ملزم سنجے رائے کے خلاف فرد جرم داخل کیا ہے۔ اس فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ رائے نے مبینہ طور پر یہ جرم تب کیا جب ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی کے دوران اسپتال کے سمینار ہال میں سونے چلی گئی تھی۔ سنجے رائے مقامی پولیس کے ساتھ خدمت گار کے طور پر کام کیا کرتا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *