شام پر اسد خاندان کے دور اقتدار پر ایک طائرانہ نگاہ

[]

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ فروری 1971 میں حافظ الاسد کے شام کی صدارت سنبھالنے سے  لے کر دسمبر 2024  بشار الاسد کے اقتدار کھونے تک باب بیٹے کی شام پر حکومت کے تقریباً 54 سال بنتے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں کا تخت صدارت پر آنا اور معزول ہونا فوجی  مہم جوئی کا نتیجہ تھا۔

اس رپورٹ میں باپ بیٹے کے طرز حکمرانی کے اہم ترین پہلوؤں اور اثرات کا مختصراً جائزہ لیا جائے گا۔

بغاوتوں کے دور کا خاتمہ! 

شام 1920ء میں پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد  فرانس کی سرپرستی میں وجود میں آیا۔

 اس وقت سے لے کر 1946ء تک فرانس کے حتمی انخلا اور شام کی آزادی تک اس ملک کا انتظامی ڈھانچہ بدترین تقسیم سے دوچار ہوا

1946 میں “آزاد شام” کے قیام کے بعد سے، اس ملک نے انتشار، بیرونی جنگوں، اندرونی بغاوتوں اور یہاں تک کہ “غیر ملکی اتحادوں” کا مشاہدہ کیا اور 1948 میں، مقبوضہ فلسطین میں ناجائز صیہونی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی، پہلے بیرونی فوجی تنازعات نے جنم لیا۔

  1967 میں، شام نے اپنی دوسری بڑی غیر ملکی جنگ کا تجربہ کیا، اور ان تمام سالوں کے دوران، اس کا ترکی کے ساتھ “اسکندرون” کی واپسی پر تنازعہ رہا، جس نے مزید فوجی تنازعات کو جنم دیا۔

 1949ء میں پہلی بغاوت ہوئی، اس کے بعد بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور 1963ء تک کل سات فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں حکومت ختم ہو گئی۔

 فروری 1958ء میں شام اور مصر کے اس وقت کے صدور “شکری القوتلی” اور “جمال عبدالناصر” کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد “متحدہ عرب جمہوریہ” کا قیام عمل میں لایا گیا، اور اس طرح سے  شام بنیادی طور پر ختم ہوگیا! نئے ملک کا دارالحکومت قاہرہ تھا اور اس کے صدر جمال عبدالناصر تھے۔

 1960 میں دونوں ممالک کی پارلیمنٹ بھی تحلیل ہو گئی اور متحدہ پارلیمنٹ نے قاہرہ میں کام کرنا شروع کر دیا، بالآخر 1961 میں دمشق میں ایک اور بغاوت ہوئی اور متحدہ عرب جمہوریہ معدوم ہوا۔

 مندرجہ بالا صورت حال سے واضح ہوا کہ شام میں بنیادی طور پر اسد خاندان کی حکمرانی تک سیاسی استحکام کا فقدان تھا، یقیناً اسی دور میں جمہوریت قائم ہوئی اور میڈیا اور مختلف نظریات رکھنے والی جماعتیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی تھیں۔ لیکن اسی جمہوریت نے سیاسی نظام کے خلاف انتشار اور کئی فوجی بغاوتیں بھی کیں! لیکن شام میں اسد خاندان کی حکمرانی کے بعد بالکل مختلف صورت حال ہے، حافظ الاسد کی موت کے بعد بھی بغاوت کی کوئی خبر نہیں تھی، اور دمشق میں مشکل ترین دور میں بھی “سیاسی استحکام” برقرار رہا۔

 شام کی حقیقی آزادی 

دوسرا اہم نکتہ اسد باپ بیٹے کے دور میں شام کی حقیقی آزادی ہے۔

1956 میں، سوویت یونین کے معاہدے کے بعد، شام مشرقی بلاک کا رکن بن گیا۔ لیکن حافظ الاسد کے دور میں وہ بتدریج اپنی آزادی بحال کرنے میں کامیاب رہے، جس کا اظہار صدام کی بغاوت کے بعد بغداد کے ساتھ ان کے تصادم کے دوران ہوا۔

یہاں تک کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد حکومتی ڈھانچے اور حتیٰ کہ شام کی خارجہ پالیسی میں بھی کوئی خلل نہیں پڑا۔ کیونکہ شام حافظ الاسد کے دو عشروں کے دور حکومت میں آزادی کی طرف بڑھ چکا تھا۔

 1991 کے آغاز اور سوویت یونین کے آخری مہینوں میں، شام پہلی خلیج فارس جنگ اور کویت کی آزادی کے اہم فریقوں میں سے ایک تھا۔ 

اسی سال اس نے خلیج فارس تعاون کونسل کے مشترکہ فوجی سیکورٹی معاہدے میں بطور مبصر شرکت کی اوریہ آزادی بشار الاسد کے دور حکومت میں برقرار رہی اور اس نے لبنان سے انخلاء، شام کے بحران، عرب لیگ میں بااختیار واپسی وغیرہ جیسے مسائل میں خود کو ظاہر کیا۔

 قنیطرہ کی آزادی 

تیسرا اہم نکتہ جس پر اس تناظر میں غور کیا جانا چاہیے وہ 1973 میں جنگ تشرین کا تجربہ ہے جو قنیطرہ کی آزادی کا باعث بنی۔ پوری تاریخ میں تشرین کی جنگ شامی حکومت کا واحد کامیاب تجربہ ہے، جس میں دمشق اپنی سرزمین کے ایک حصے کو غیر ملکی دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوا۔

اسد خاندان کی حکومت سے پہلے، “لبنان کی آزادی”، “اسکندرون صوبے پر ترکی کے حملے اور اس کے الحاق” اور “گولان پر صیہونی حکومت کے حملے اور اس کے الحاق” کی صورت میں شامی سرزمین کا ایک حصہ الگ کر دیا گیا تھا۔

 1973 کی جنگ میں حافظ الاسد نے مقبوضہ گولان کے ایک حصے کو آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی جسے آج “صوبہ قنیطرہ” کہا جاتا ہے۔

یہ بات بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے کہ بشار الاسد کے زوال کے چند گھنٹے بعد ہی صیہونی غاصب دوبارہ اس علاقے میں داخل ہو گئے۔

 لبنان میں عسکری موجودگی کا اتار چڑھاؤ

 لبنان میں موجودگی کے اتار چڑھاؤ اسد خاندان کی حکمرانی کی ایک اور خصوصیت ہے۔

 لبنان کا ملک شام کے علاقے کا ایک حصہ تھا، جسے فرانس کی طرف سے خود مختار علاقوں یا نام نہاد “ریاستوں” کے قیام کے دوران، فرانس کے عیسائیوں کی حمایت سے خود مختاری دی گئی۔ لبنان نے شام سے آزادی اور علیحدگی کا مطالبہ کیا، یوں لبنان کو وجود میں لایا گیا۔

 اس کے بعد سے لبنان اور شام کے درمیان سماجی بندھن جاری رہا اور یہاں تک کہ بعض واقعات میں شام کے صدور کو لبنان میں قتل کیا گیا۔

لیکن سیکورٹی اور فوجی لحاظ سے شام اور لبنان ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ اسد خاندان کے دور میں، اس تعلق کی ایک مختلف انداز میں وضاحت کی گئی تاکہ لبنان کی آزادی کی خلاف ورزی نہ ہو۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی اور فوجی تعلقات بھی برقرار رہ سکیں۔

 اس معاملے کا ایک حصہ لبنان میں شام کی فوجی موجودگی کی صورت میں تشکیل پایا جو 1982 میں شروع ہوا اور 2005 تک جاری رہا اور دوسرا حصہ شام اور لبنانی مزاحمت کے درمیان رابطے کی صورت میں تشکیل پایا۔ 

صیہونی رجیم کے ساتھ تصادم؛ سمجھوتہ یا مزاحمت

اسد خاندان کے دور حکومت کا ایک اور اہم پہلو صیہونی رجیم کے ساتھ سمجھوتے اور مزاحمت کا پہلو ہے۔

 یہ کہنا ضروری ہے کہ حافظ الاسد کی قیادت میں دمشق پہلا عرب ملک تھا جو صیہونیوں کو شکست کا مزہ چکھانے میں کامیاب ہوا، جس نے بالآخر 1973 کے جنگ بندی معاہدے اور صیہونیوں کی قنیطرہ سے پسپائی میں خود کو منوا لیا۔

شام کو سمجھوتے کی راہ میں سب سے اہم رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔ وادی عربہ میں صیہونی حکومت کے ساتھ اردن کے شاہ حسین کے معاہدے کے بعد عمان اور دمشق کے تعلقات میں دراڑھ پڑ گئی۔

 شام اس سلسلے میں کبھی بھی ان دباؤ میں نہیں آیا اور مختلف فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی میزبانی کی۔ پچھلی صدی کے اواخر اور نئی صدی کے آغاز میں امریکہ نے شام کو معمول پر لانے اور صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، یہاں تک کہ گولان کی واپسی کا وعدہ بھی کیا۔

لیکن وہ ان کے لالچ اور دباؤ میں نہیں آئے۔

 نتیجہ 

یہ تجزیاتی رپورٹ “نئی صدی کے پہلے عشرے میں اقتصادی ترقی کی مدت”، “شام کے بحران اور خانہ جنگی” اور “شام پر پابندی اور شدید اقتصادی دباؤ” جیسے مسائل کے تناظر میں ہے۔

 بشار الاسد کی حکمرانی کا پہلا عشرہ اس ملک کے متوسط ​​طبقے کو مضبوط کرنے کا باعث بنا جب کہ دوسرا اور تیسر پہلو تفصیل کا متقاضی ہے، بنیادی طور پر ان پہلوں  پر توجہ دیے بغیر اسد حکومت کا زوال ناممکن ہے۔

آخر میں یہ کہنا چاہیے کہ شام پر اسد خاندان کی 54 سالہ حکمرانی آج ختم ہو گئی۔ لیکن بلا شبہ یہ 54 سال شام کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔

 اسد خاندان کا دور حکومت نئے شام کی پوری تاریخ کا نصف سے زیادہ حصہ بناتا ہے، اور کسی دوسرے حکمران کی طرح اس میں بھی بہت سی خوبیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔

البتہ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ شام کے عوام اپنی تاریخ اور ثقافت کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان میں ’’قومی فخر‘‘ کا جذبہ بہت مضبوط اور گہرا ہے۔ کیا یہ احساس نئے دور میں مزید مضبوط ہو گا؟

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *