ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانا خطے کے مسائل کے حل میں موثر ثابت ہو سکتا ہے

[]

مہر نیوز کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ رئیسی نے پڑوسی مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی توسیع کو ان تمام اہداف کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ موجودہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ اس لیے پہلے مرحلے میں ہم نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حجم کو 10 بلین ڈالر تک پہنچانے پر اتفاق کیا ہے۔

آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ دو اہم اسلامی ممالک کی حیثیت سے ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانا خطے کے مسائل کے حل میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اسلامی ممالک کے خلاف کسی بھی اقدام سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت ہے۔

اس اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے علاقائی تعلقات کو مضبوط  بنانے کے لئے صدر رئیسی کی حکمت عملی کی تعریف کی۔ اجلاس میں دوطرفہ اقتصادی تبادلے کے حجم کو 10 بلین ڈالر سالانہ تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔

ایرانی صدر نے پاکستان کے سرکاری دورے کے دوران دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود کی مشترکہ ملاقات میں کہا کہ ہمسائیگی کے تاریخی رشتوں اور مشترکہ عقائد نے تہران_اسلام آباد کے درمیان تعلقات کی سطح کو مزید مستحکم کیا ہے۔

 انہوں نے باہمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں فریقین کے درمیان روابط بڑھانے کی کوششوں پر زور دیا۔

آیت اللہ رئیسی نے ایران اور پاکستان کے درمیان توانائی کے شعبے سمیت مشترکہ سرحدوں پر سیکورٹی کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سرحدی تبادلوں کی ترقی کے لیے ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون اور تعلقات کی توسیع کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کو دہشت گردی کی مختلف شکلوں کے خلاف فیصلہ کن طور پر لڑنے اور بلا تفریق انسانی حقوق، خاص طور پر مظلوم فلسطینی عوام کے دفاع کے مشترکہ نقطہ نظر کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی وفود کے تبادلے اور دوطرفہ تعلقات کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اقتصادی تعاون کے مشترکہ کمیشن کو فعال کرنے کی اہمیت پر  زور دیتے ہوئے کہا: ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات خطے کے مسائل کے حل میں کارگر ثابت ہوسکتے ہیں، جب کہ خطے میں غیر ملکیوں کی موجودگی نہ صرف مسائل کے حل میں مددگار ثابت نہیں ہوئی بلکہ مسائل کو مزید پیچیدہ بننے کا سبب بنی ہے۔

انہوں نے اسلامی ممالک پر کسی بھی طرح کے مظالم اور حملوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اسلامی ممالک کے اتحاد اور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فلسطین اور بالخصوص غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کو اسلامی ممالک کے درمیان اس طرح کی ہم آہنگی کے فقدان کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا: اس میدان میں ایران اور پاکستان کے درمیان گہرا تعاون دیگر اسلامی ممالک اور امت اسلامیہ کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لئے موئثر ثابت ہو سکتا ہے۔

اس اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو انتہائی مضبوط اور دوستانہ قرار دیتے ہوئے کہا: صدر رئیسی کے اس دورے سے پاکستان کو عزت ملی اور یہ دورہ دونوں ممالک کی ترقی اور باہمی تعاون کا باعث بنے گا۔ 

شہباز شریف نے دونوں ممالک کے درمیان طویل مشترکہ سرحدوں کا ذکر کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ اور سرحدی علاقوں میں سیکورٹی کو بہتر بنانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سرحدی مارکیٹوں کی توسیع کے ذریعے سرحدی علاقوں میں اقتصادی خوشحالی پیدا کرنے پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ میں حکومت اور پاکستان کے عوام کی طرف سے رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایران کے عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے علاقائی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ڈاکٹر رئیسی کے تدبر اور اقدامات کو سراہا۔

وزیر اعظم نے دوطرفہ اقتصادی تبادلوں کے حجم کو سالانہ 10 بلین ڈالر تک پہنچانے کے ہدف پر تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان توانائی سمیت مختلف شعبوں میں اقتصادی تعاون کی توسیع علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔ 

انہوں نے بیت المقدس کی آزادی کے لئے فللسطینیوں کی جد وجہد کی حمایت اور مظلوم فلسطینی عوام کے دفاع میں اسلامی جمہوریہ ایران کی استقامت کو قابل تعریف قرار دیتے ہوئے کہا: اسلامی ممالک کا اتحاد اور ہم آہنگی، مظلوم فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کی روک تھام کے لیے سب سے موثر اقدام ہے۔

شہباز شریف نے کشمیری عوام کے حقوق سے متعلق جد وجہد کے سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان علاقائی اور بین الاقوامی مسائل میں تعاون کو مضبوط بنانے پر بھی زور دیا۔

اس اجلاس میں دونوں ممالک کے سربراہان نے تجارت کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر بھی بات کی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستانی فریق کو توانائی کے شعبے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل درآمد میں تیزی لانی چاہئے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *