[]
یرید احمد نعمانی
آج ہم گناہوں کے سمندر میں غرق ہیں۔ قدم قدم پر رب کریم کی نافرمانیاں کررہے ہیں۔ ہماری صبح، ہماری شام، ہماری رات معصیتوں سے آلودہ ہیں۔ نفس و شیطان کے چنگل میں پھنس کر ہم اپنے رحیم و مہربان پر وردگار کی بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ دنیا کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کررکھا ہے۔ اس فانی، عارضی اور ختم ہوجانے والی زندگی کو ہم نے اپنا مطمح نظر بنایا ہوا ہے۔ خوفِ ِخدا، فکر ِآخرت اور بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا احساس معدوم ہوتا جارہا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ کثرتِ ذنوب نے ہم پر آفات و بلیات اور مصائب وآلام کے وہ پہاڑ توڑے کہ الامان والحفیظ!
حالانکہ کتاب و سنت ہمیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ انبیائے کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ کوئی فردِ بشر معصوم نہیں۔ ہر انسان سے خطا، لغزش اور غلطی کاصدور ہوسکتا ہے، لیکن بہترین خطار کار وہ ہے جو اپنے کیے پر نادم و شرم سار ہو، جسے اس حقیقت کا احساس ہو کہ میرا بد عمل محفوظ کرلیا گیا ہے اور میرا رب مجھ سے اس بارے میں یقیناپوچھے گا۔ یہی وجہ ہے صاحبانِ ایمان کو بار بار گناہوں کے ’’تریاق‘‘ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی دسیوں آیاتِ مبارکہ توبہ و استغفار کی اہمیت بیان کرتی ہیں، سیکڑوں احادیثِ مبارکہ میں انابت اور رجوع الیٰ اللہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بندہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد مایوس و پریشان ہو جائے، بلکہ کتابِ مبین میں خطا کاروں کے واسطے صاف صاف اعلان کردیا گیا ہے : ’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔‘‘
پھر سچے دل سے استغفار وتوبہ اور باری تعالیٰ کے سامنے اقرارِ معصیت کی خیر و برکات دونوں جہانوں میں نصیب ہوتی ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو کوئی استغفار کو لازم پکڑے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی میں آسانی، ہر غم سے دوری (کا سامان) پیدا فرمائیں گے اور اُسے ایسی جگہ سے رزق نصیب فرمائیں گے، جہاں اس کا گمان بھی نہ ہوگا۔‘‘ (سنن ابو دائود)
دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا: ’’(قیامت کے روز) جو شخص اپنے نامۂ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے، اس کے لیے خوش خبری ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
استغفار کا عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ سے رب کریم اس سے زیادہ راضی (اورخوش) ہوتے ہیں، جتنا تم میں سے کوئی (اس وقت ہوتا ہے جب وہ) اپنی سواری پر جنگل و بیاباں میں جارہا ہو،اچانک وہ سواری اس سے گم ہوجائے، اس حال میں کہ اس پر اس کا کھانا پینا (بھی) رکھا ہو، وہ اس (کی واپسی) سے مایوس ہوجائے اور ایک درخت کے سائے میں آکر لیٹ جائے، ابھی وہ اس حال میں ہو کہ دفعتاً دیکھے وہ سواری اس کے پاس کھڑی ہے، بس وہ اس کی لگام تھام لے، پھر مسرت و شادمانی کے عالم میں یہ کہہ بیٹھے: ’’اے اللہ! آپ میرے بندے اور میں آپ کا رب۔‘‘ (یعنی خوشی کے باعث غلط جملہ کہہ دے۔) (صحیح مسلم )
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک عمل سے بھی اُمت کو استغفار کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ کے سامنے توبہ کرو، بے شک میں بھی دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: ’’ہم ایک مجلس میں آپؐ سے سو مرتبہ (استغفار کا یہ کلمہ پڑھنا) شمار کیا کرتے تھے: ’’رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔‘‘ (سنن ابو دائود)
بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم توبہ کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آرہے تو پھر ایسی توبہ اور ایسے استغفار کا کیا فائدہ؟ حالانکہ حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص استغفار کرتا رہے، اُسے (گناہ پر) اصرار کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، اگرچہ دن میں ستر مرتبہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرے۔‘‘ (سنن ابو دائود)
مذکورہ حدیث مبارکہ کی تشریح میں حضرات علماء کرام فرماتے ہیں: ’’گناہ پر اصرار کرنے والا وہ ہے جو استغفار نہ کرے اور گناہ پر شرمندہ بھی نہ ہو۔‘‘ ابن الملکؒ فرماتے ہیں: ’’جو کوئی معصیت و گناہ کا کام کرے اور اس کے بعد استغفار کرلے اور اظہار ندامت سے کام لے، وہ برائی پر اصرار کرنے سے نکل گیا۔‘‘ (عون المعبود)
گناہوں پر شرم سار ہونا، اپنی لغزش کا اقرار کرنا اور اپنے جرم کا اعتراف کرنا ،وہ مبارک و بابرکت عمل ہے جس کا توڑ شیطان کے پاس نہیں ۔آخر میں سمجھنے کی اہم بات یہ ہے کہ توبہ کی تین شرائط ہیں:
اول : آدمی گناہ سے فی الفور باز آجائے۔ دوم: اپنے کیے پر نادم ہو۔ سوم: آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو۔
اگر مذکورہ باتوں میں سے ایک بھی کم ہو تو توبہ نامکمل رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کثرتِ استغفار کی توفیق مرحمت فرمائے۔
*****