کنگنا سے ہمدردی رکھیں… اروند موہن

[]

صاف لگتا ہے کہ کنگنا کا یہ انٹرویو اس چینل اور اینکر نے چاہے جس جائز یا ناجائز وجہ سے چلایا اور جتنی بھی تیاری کی ہو، کنگنا اپنی طرف سے پوری طرح تیار ہو کر آئی تھی۔ ان کی باتوں میں کوئی الجھاؤ نہیں تھا اور نہ کہیں ’علم‘ کی کمی نظر آ رہی تھی۔ خاتون اینکر نے اپنے علم سے اس میں ترمیم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ناکام ہو گئی۔ کنگنا کی تیاری اپنے نئے کیریئر میں دھماکہ کرنے، نئی سرخی بننے، اپنے لیڈر کے سخت گیر مخالف کو تباہ کرنے اور اپنے لیڈر کو بھگوان کا عنصر والا بتا کر اس کی نظر میں خاص جگہ بنا لینے کی تھی۔ درحقیقت یہ اس کی بے چارگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تاریخ سے متعلق اس کے محدود علم سے زیادہ موجودہ سیاست کو نہ پہچان پانے، آج کی پارٹیوں، لیڈران، انتخاب کے کردار کو نہ سمجھ پانے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اسمرتی ایرانی ایک انٹرویو سے مودی کی نظر میں بھلے آ گئی ہوں، لیکن ان کی محنت، کامیابی اور بے عزتی برداشت کر پارٹی میں رہنے کی صلاحیت سبھی جانتے ہیں۔ آج مودی کے جتنے معاونین ہیں، یا راہل کے جتنے قریبی ہیں، یا اکھلیش اور تیجسوی کے جتنے مددگار ہیں وہ اس طرح کی باتیں کر کے، اتنی نچلی سطح کی تیاری سے نہیں آئے ہیں۔ اور سماجی و سیاسی کام اس طرح کے ہلکے پن والا ہے بھی نہیں۔ اسی لیے اس زبردست اداکارہ کے ذریعہ سیاست اور انتخاب کے سمندر میں ڈبکی لگانے پر ہمدردی کا جذبہ جاگ رہا ہے۔ وہ اس کا ’استعمال‘ اپنے لیے نہیں کر سکتیں، یہ سیاست اور انتخاب ان کو اور ان کے کیریئر کو ضرور نگل جائے گا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *