[]
مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ قرآن اور عترت کی تعلیمات میں ہر قسم کی عبادات کے متعدد اسباب بیان کیے گئے ہیں اور ہر وہ عمل جس پر دین اسلام میں تاکید کی گئی ہے اس کے گہرے معانی اور بہت سی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔
رمضان کے مقدس مہینے میں روزے کی تکمیل کے طور پر متعارف کرائے گئے اعمال میں سے ایک زکات فطرہ کی ادائیگی ہے، جسے عرف عام میں فطرہ بھی کہا جاتا ہے۔ فطرہ کی ادائیگی کے اثرات اور ثمرات کو جاننا ایمان کی تقویت کا باعث بنتا ہے اور انسان پر خدا کی رحمت کے دروازے کھول سکتا ہے۔
فطرہ سے متعلق حکمت اور دینی ہدایات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے مہر نیوز نے فطرہ کے بنیادی مسائل پر قرآن و حدیث اور مراجع تقلید کے استفتاات کی روشنی میں ایک جامع رپورٹ تیاری کی ہے
فطرہ یا زکات فطرہ کیا ہے؟
زکوٰۃ فطرہ یا فطرہ کا لفظ سنتے ہی سب سے پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فطرہ کیا ہے اور رمضان میں مہینہ بھر روزے رکھنے کے بعد ہم اس رقم یا جنس کو بطور فطرہ کیوں ادا کریں؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ مذہبی تعلیمات کے مطابق رمضان المبارک میں ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد عیدالفطر کے دن جو کہ ماہ شوال کی یکم بنتی ہے، اس دن زکات فطرہ ادا کرنا شرعا واجب ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ عید الفطر کے دن دینی مراجع تقلید کی طرف سے مقرر کردہ رقم یا جنس کو قربت کی نیت سے ادا کرے تاکہ غریبوں، مسکینوں اور اسی طرح اسلامی فقہ میں بیان کردہ دیگر امور پر خرچ کیا جاسکے۔
1. روزہ اور فطرہ کی ادائیگی ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں
ہر وہ عبادت جو اسلام میں واجب یا مستحب قرار دی گئی ہے وہ رحمت و برکت کے خاص آثار رکھتی ہے۔ جس طرح ہر وہ عمل جو حرام یا مکروہ کے عنوان میں آتاہے، وہ برائی اور فساد نتائج کا حامل ہوتا ہے۔
فطرہ یا زکات فطرہ کی ادائیگی بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب ایک ماہ کے روزوں کے بعد مالی ادائیگی کو فرض قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں برکتوں اور حکمتوں کے خاص آثار و برکات ضرور پوشیدہ ہیں۔
فطرے کی حکمتوں میں سے ایک کی طرف امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس فرمان میں اشارہ ہوا ہے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا: یہ سچ ہے کہ زکات فطر کی ادائیگی روزے کو مکمل کرنے والے عوامل میں سے ایک ہے، جس طرح پیغمبر ص اور ان کی آل پر دورد بھیجنا نماز کی تکمیل کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص روزہ رکھے لیکن زکات فطر جان بوجھ کر ادا نہ کرے تو گویا اس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔ بالکل ادی طرح کہ اگر کوئی نماز پڑھے لیکن حضور ص اعر آپ کی آل ع پر درود نہ بھیجے تو گویا اس نے نماز ہی نہیں پڑھی۔
اس حدیث مبارکہ کے مطابق فطرے کی ادائیگی کا مطلب ہے رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل ہے۔
گویا اللہ تعالیٰ نے روزہ جیسی جسمانی عبادات کو زکات فطرہ جیسی معاشی عبادات کے ساتھ ملایا ہے اور ہر ایک کو دوسرے کی تکمیل کے طور پر رکھا ہے تاکہ اس طرح غریبوں کے حالات کا احساس جو کہ روزے کی شرائط میں سے ایک شرط ہے، حاصل ہوجائے اور روزہ دار ان کی شرائط زندگی کا ادراک کرتے ہوئے اپنے مال کا ایک حصہ ضرورت مندوں پر خرچ کرے۔
2. جان کی حفاظت اور موت کا ٹل جانا
دینی متون میں فطرہ کو ایک صدقے کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے کسی سے فرمایا: اپنی اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے زکات فطرہ ادا کرو اور ان سب کا خیال رکھو اور کسی کو نہ بھولو۔ کیونکہ اگر تم بھول کر اپنے عیال میں کسی کا صدقہ نہیں نکالوگے تو مجھے اس کے فوت یوجانے کا ڈر ہے۔ اس شخص نے امام سے پوچھا: فوت سے آپ کی کیا مراد ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: وہی موت۔
اس حدیث کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرہ در اصل صدقہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور انسان کو آفات و بلیات یہاں تک کہ موت سے بھی بچاتا ہے۔ لہذا لوگوں کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جان بچانے کے لیے اسے ادا کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
3. فطرہ کی ادائیگی کا مطلب تہذیب نفس ہے۔
قرآن کی آیت “قد افلح من زکیھا” کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ “زکیہ” کا معنی زکای فطرہ کی ادائیگی ہے۔ جیسا کہ یہ عمل تزکیہ نفس کی مثالوں میں سے ایک ہے۔ وہ اس طرح کہ فطرہ ادا کرنے سے نفس کو اخلاقی برائیوں سے پاک کیا جاسکتا ہے، کیونکہ مال کا کچھ حصہ غریبوں کو دینا انسان کو حرص سے دور کرنے کے ساتھ دوسروں کی خدمت کے جذبے کو بھی تقویت بخشتا ہے۔
کن لوگوں پر فطر دینا واجب ہے ؟
ہر بالغ، عاقل اور ہوشیار مسلمان جو فقیر نہیں ہے، اسے رمضان کے مقدس مہینے کے آخر میں اپنے اور اپنے نانخور (زیر کفالت) افراد کی طرف سے فطرہ ادا کرنا چاہیے۔ اس رو سے ہر وہ شخص جس میں یہ چار شرطیں پائی جاتی ہوں، حتی کوئی کوئی غیر مسلم بھی اس کا نانخور (کھانا کھانے والوں میں شمارہوتا ہو) والا ہو، اس کا بھی فطرہ دینا واجب ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بعض وجوہات کی بنا پر رمضان کے روزے نہیں رکھ سکتا، اس پر فطرہ ادا کرنا واجب ہے اور روزہ نہ رکھ پانا فطرہ ادا نہ کرنے کی وجہ یا عذر نہیں بن سکتا۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ “قوت غالب” (وہ جنس جو سال بھر زیادہ کھائی جاتی ہو، مثلا گندم، چاول وغیر) کو فطرے کی ادائیگی کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ اس صورت میں واضح رہے کہ غالب قوت سے مراد صرف ماہ رمضان میں استعمال ہونے والی جنس مراد ہی نہیں ہے بلکہ سال بھر استعمال ہونے والی جنس معیار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض مراجع تقلید از جملہ رہبر معظم کے فتویٰ کے مطابق جس میں اگر گیہوں، چاول، کھجور، جَو وغیرہ سے دیا جائے تو کافی ہے یعنی قوت غالب شخص ضروری نہیں ہے.
کن افراد پر فطرہ نکالنا واجب نہیں ہے؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق، لوگوں کے کچھ گروہوں کو فطرہ کی ادائیگی سے استثنیٰ حاصل ہے، حالانکہ ان لوگوں پر روزہ رکھنا فرض ہے۔ جو کہ درج ذیل ہیں:
1. فقیر: اسلام کے مطابق، فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس اپنے اور اپنے اہل و عیال (جو اس کے نانخور شمار ہوتے ہوں) کا سال بھر کا خرچہ بطور یکجا یا پھر رننگ میں نہ ہو۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس عید الفطر کی رات سال بھر کا خرچہ نہ ہو، لیکن وہ ملازم ہو اور ہر ماہ آمدنی رکھتا ہو تو وہ فقیر نہیں ہے۔اسی طرح کوئی ایسا شخص جو بے روزگار ہے لیکن اگلے سال کے لیے اخراجات رکھتا ہے تو وہ بھی فقیر نہیں ہے۔ لیکن جو شخص بے روزگار ہو اور اس کے پاس ایسی کوئی آمدنی نہ ہو کہ وہ اگلے سال تک خرچ کر سکے اسے فقیر سمجھا جاتا ہے۔
2. لڑکی جو اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے: اگر کوئی لڑکی رمضان کے آخری دن غروب آفتاب سے پہلے اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے اور باضابطہ طور پر ساتھ رہنا شروع کر دیتی ہے تو اس کا شوہر اس کے فطرہ کا ذمہ دار ہے۔ لیکن اگر وہ رمضان کے آخری دن غروب آفتاب کے بعد اپنے شوہر کے گھر جائے تو اس کے والد کو اس کا فطرہ ادا کرنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں جو لڑکی عقد میں ہے لیکن اپنے باپ کے گھر رہتی ہے تو اس کا فطرہ والد کے ذمہ ہے، مگر یہ کہ وہ رمضان کے آخری دن غروب آفتاب سے پہلے اپنے شوہر کے گھر جائے۔ اس صور میں شوہر پر واجب ہے۔
جنین: جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو اور ابھی پیدا نہ ہوا ہو اس کا فطرہ دینا واجب نہیں ہے، کیونکہ وہ ابھی تک کسی کا نانخور (کھانا کھانے والا) نہیں شمار نہیں ہوتا۔
4. بچہ: جو بچہ رمضان کے آخری دن غروب آفتاب کے بعد پیدا ہوتا ہے اس کا فطرہ نہیں ہوتا۔ البتہ اگر بچہ رمضان کے مہینے میں اس کی آخری تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے پیدا ہو تو والد یا والدہ کا خرچہ اٹھانے والے شخص کو اس کا فطرہ ادا کرنا چاہیے۔
فطرہ کن لوگوں کو دیا جائے؟
فطرہ کے استعمال یا موارد مصرف کے بارے میں مراجع تقلید کے فتاوی کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو کہ مجموعی طور پر دو آراء پر مشتمل ہیں۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر مراجع تقلید کے مطابق فطرہ، زکات مال آٹھ صورتوں کو شامل ہے یعنی فطرے کے بھی آٹھ مصارف یا موارد ہیں جیسے:
فقراء۔
مساکین: یعنی وہ لوگ جن کی
معاشی حالت فقیر سے بھی بدتر ہے۔
ابن سبیل: وہ مسافر جو راستے میں اور ان کے پاس اپنے شہر واپس جانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
مقروض: وہ مقروض جو اپنا قرض ادا نہیں کر سکتے۔
فی سبیل اللہ: یعنی تمام ان نیک کاموں میں جو مسلمانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ جیسے مساجد، سڑکیں، پل، مدرسہ اور ہسپتال وغیرہ کی تعمیر اور مرمت۔
مولفت القلوب: وہ کافر جن کو زکوٰۃ دے کر اسلام کی ترغیب دی جاتی ہے یا جنگ میں مسلمانوں کے لئے مدد لی جاتی ہے۔
نائب امام یا اسلامی حکومت کے ملازمین کو ادائیگی جو زکوٰۃ جمع کرنے اور اسے ضرورت مندوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔
البتہ بعض دیگر شیعہ مراجع تقلید جیسے آیت اللہ العظمی صافی گلپائیگانی، مکارم شیرازی اور نوری ہمدانی کا یہ فتوی ہے کہ فطرہ شیعہ فقراء اور مساکین کے لیے ہے اور اسے دوسرے معاملات میں خرچ کرنا ضروری نہیں ہے۔
مثال کے طور پر آیت اللہ مکارم شیرازی نے اس سلسلے میں تاکید کی ہے کہ: “زکوۃ فطرہ کو ضرورت مند شیعوں کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی اس شرط کا حامل ہوجائے مثال کے طور پر زلزلہ زگان، تو انہیں فطرہ دیا جاسکتا ہے۔
اس کے ساتھ مستحب ہے کہ ہر شخص اپنا اور اپنے اہل و عیال کا فطرہ پہلے اپنے فقیر رشتہ داروں کو دے اور اگر ان میں کوئی فقیر نہ ہو تو کسی فقیر پڑوسی یا اہل علم، نیک اور پرہیزگار فقیر کو دے۔
فطرے کی مقدار کیا ہے؟
جس شخص پر فطرہ واجب ہو اسے چاہیے کہ وہ تین کلو (ایک صاع) گندم، چاول، جو، کھجور، کشمش یا مکئی اپنے اور اپنے ہر نانخور کا ادا کرے۔
مراجع تقلید کے فتاوی کے مطابق مذکورہ اجناس میں سے ایک کا انتخاب کرنا بہتر ہے، جو اس علاقے، گاؤں یا شہر کے لوگ سال بھر زیادہ کھاتے ہوں۔
فطرہ کی ادائیگی میں اہم نکتہ یہ ہے کہ جو شخص چند لوگوں کا فطرہ ادا کرتا ہے اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سب کا فطرہ ایک ہی جنس سے ادا کرے ۔ مثال کے طور پر سب کا فطرہ چاول یا گندم دے دیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر بعض افراد کا فطرہ چاول اور بعض کس گندم دے تو کافی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ ایک ہی شخص کے فطرہ کی ادائیگی میں آدھا گندم اور آدھا چاول نہیں دیا جا سکتا۔
فطرہ کب ادا کرنا چاہیے؟
فطرہ دو وقتوں میں ادا کیا جا سکتا ہے: ایک عید الفطر کی نماز سے پہلے، اس لیے اگر کوئی عید الفطر کی نماز پڑھنا چاہے تو احتیاطا عید کی نماز سے پہلے فطرہ ادا کرے۔
دوسرا عید الفطر کی نماز کے بعد ظہر کی نماز تک ہے، اگر کوئی عید الفطر کی نماز نہ پڑھے تو اسے نماز ظہر تک فطرہ ادا کرنا چاہئے۔
لہٰذا ماہ رمضان میں فطرہ ادا کرنا درست نہیں ہے اور اگر کسی نے ماہ رمضان میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کا فطرہ ادا کیا ہو تو اسے ماہ رمضان ختم ہونے کے بعد دوبارہ فطرہ ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ فطرہ کی ادائیگی کا صحیح وقت رمضان کی آخری شام کے بعد ہے۔
البتہ اگر کسی وجہ سے کوئی شخص عید الفطر کی اذان کے وقت فطرہ ادا نہ کر سکے تو اسے جلد از جلد ادا کرنا چاہیے۔ البتہ اس صورت میں اسے ادا یا قضا کی نیت کئے بغیر فطرہ نکالنا چاہیے۔