[]
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے مہرولی میں منہدم کردہ اخوندجی مسجد کے مقام پر ماہ ِ رمضان میں عبادت اور نماز ِ عید ادا کرنے کی اجازت دینے سے پیر کے دن انکار کردیا۔
کارگزار چیف جسٹس منموہن کی بنچ نے انتظامی کمیٹی مدرسہ بحرالعلوم و قبرستان کی اپیل کی لسٹنگ متعلقہ معاملہ کے ساتھ 7 مئی کو کی جائے۔ انتظامی کمیٹی نے سنگل جج کے احکام کو چیلنج کیا تھا۔ سنگل جج نے ماہ رمضان کے دوران عبادت اور نماز عیدالفطر کی ادائیگی کی اجازت دینے کی درخواست خارج کردی تھی۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ سنگل جج نے ایک اور آرڈر کی بنیاد پر حکم جاری کیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ تب تک ماہ ِمضان ختم ہوجائے گا اور عید بھی گزرجائے گی لیکن بنچ نے کہا کہ اس مرحلہ پر عبوری حکم جاری نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سنگل جج نے لگ بھگ ایک ماہ قبل راحت دینے سے انکار کردیا تھا۔
اِس اپیل کی سماعت اُس اپیل کے ساتھ ہوگی۔ آپ نے اتنا انتظار کیا ہے اور تھوڑا انتظار کرلیں۔ آج 8 اپریل ہے۔ سماعت 7 مئی کو ہوگی۔ کوئی عبوری حکم جاری نہیں ہوگا۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ انتظامی کمیٹی پچھلے دروازہ سے انٹری کی کوشش نہیں کررہی ہے۔
بابری مسجد کیس اور گیان واپی کیس پر انحصار کرتے ہوئے وکیل نے کہا کہ دستوری عدالتوں نے سابق میں مذہبی عقائد کا احترام کیا ہے اور قانونی تنازعات کے زیرالتوا رہنے کے دوران عبادت کی اجازت دی ہے۔ وکیل نے بحث کی کہ ایک گھنٹہ کے لئے نماز ِ عید کی اجازت دی جائے تو آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔
ہندوستان کے عوام کو خاص طورپر مسلمانوں کو پیام جائے گا کہ عدالتیں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے تعلق سے مساوی پرجوش ہیں۔ 11 مارچ کو سنگل جج نے اخوندجی مسجد کے مقام پر ماہ ِ رمضان میں عبادت کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ نے شب ِ برأت کے موقع پر وہاں کسی کو جانے نہیں دیا لہٰذا اِس بار اس سے جداگانہ رائے قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
سنگل جج نے ریکارڈ کیا کہ وہ اراضی اب دہلی ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (ڈی ڈی اے) کے قبضہ میں ہے اور جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کا حکم پہلے ہی جاری ہوچکا ہے۔ درخواست گزار نے سنگل جج بنچ سے گزارش کی تھی کہ مسجد اخوندجی کے مقام پر ماہ ِ رمضان میں بلاروک ٹوک نماز ِ تراویح ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔
600 سالہ پرانی اخوندجی مسجد اور مدرسہ بحرالعلوم کو سنجے وَن میں غیرقانونی قراردے کر ڈی ڈی اے نے 30جنوری کو منہدم کردیا تھا۔